جماعت احمدیہ مناظرہ و مباہلہ کے میدان میں

یوں تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام، خلفاء کرام اور احمدی علماء نے اکناف عالم میں ہزاروں مباحثوں اور مباہلوں میں دشمنان احمدیت کو اُن کے انجام تک پہنچایا ہے۔ تاہم ہفت روزہ ’’بدر‘‘ کے ملینئم نمبر میں احمدیت کی تاریخ میں ہونے والے ایسے تین مباحثوں اور تین مباہلوں کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے جن میں آریہ، عیسائی اور علماء سوء مخاطب تھے۔ اس مضمون کو مکرم مولوی محمد حمید کوثر صاحب نے مرتّب کیا ہے۔
آریہ سماج سے مباحثہ:-
1886ء میں جب حضرت مسیح موعودؑ چلّہ کشی کے لئے ہوشیارپور تشریف لے گئے تو آریہ سماج ہوشیارپور کے ایک ممتاز رُکن ماسٹر مرلی دھر صاحب کی درخواست پر حضرت اقدسؑ نے اُن سے مباحثہ کرنا منظور فرمالیا۔ یہ مباحثہ دو نشستوں میں 11؍مارچ کی رات اور 14؍مارچ کے دن منعقد ہونا تھا۔ پروگرام کے مطابق پہلے جلسہ میں ماسٹر صاحب کے اسلام پر اعتراضات کے جواب حضرت اقدس علیہ السلام نے عطا فرمانے تھے جبکہ دوسرے جلسہ میں حضورؑ کی طرف سے آریہ سماج پر کئے جانے والے اعتراضات کا جواب ماسٹر صاحب نے دینا تھا۔ جب پہلا جلسہ شروع ہوا اور حضورؑ نے ابھی ماسٹر صاحب کے شقّ القمر کے بارہ میں کئے جانے والے پہلے اعتراض کا جواب الجواب لکھنا شروع ہی کیا تھا کہ ماسٹر صاحب رات کی طوالت کا بہانہ بناکر جلسہ سے رخصت ہوگئے اور باوجود روکنے کے نہ رُکے۔
دوسرے جلسہ میں حضورؑ نے فرمایا کہ آریہ سماج کا یہ عقیدہ غلط ہے کہ پرمیشر نے کوئی روح پیدا نہیں کی اور کسی کو خواہ کوئی کیسا ہی راستباز اور سچا پرستار ہو ابدی نجات نہیں بخشے گا، خدا تعالیٰ کی توحید اور رحمت کے صریح منافی ہے۔ اس پر پہلے تو ماسٹر صاحب نے یہ جھگڑا کھڑا کردیا کہ یہ ایک نہیں بلکہ دو سوال ہیں۔ پھر انتہائی سست رفتاری سے پہلے حصہ کا جواب لکھنا شروع کیا جو تین گھنٹے کے بعد سنایا اور کہا کہ دوسرے حصہ کا جواب ہم گھر سے لکھ کر بھجوادیں گے۔ حضورؑ نے فرمایا کہ اگر جواب گھر سے لکھ کر ہی بھجوانا تھا تو مباحثہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ماسٹر صاحب نے جاتے ہوئے معذرت کی کہ ہماری سماج کا وقت ہورہا ہے۔
اس مباحثہ کے نامکمل رہ جانے کی وجہ سے ستمبر 1886ء میں حضور علیہ السلام نے ’’سرمہ چشم آریہ‘‘ تصنیف فرمائی جس میں اس کتاب کا جواب لکھنے والے کو پانچ سو روپے انعام دینے کا بھی اعلان کیا۔ اس کتاب کو مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے اپنے رسالہ میں لاجواب قرار دیا اور عیسائی اخبار ’’نورافشاں‘‘ نے لکھا کہ ’’اس کتاب نے آریہ سماج کو پورے طور پر بے نقاب کرتے ہوئے اُسے پاش پاش کردیا ہے۔ کتاب کے فیصلہ کُن دلائل کا ردّ کرنا قطعی طور پر ناممکن ہے‘‘۔
عیسائیوں سے مباحثہ:-
1893ء میں امرتسر میں عیسائی مشن کے انچارج ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک نے مسلمانوں کو مباحثہ کا تحریری چیلنج دیا۔ جیسے ہی حضرت مسیح موعودؑ کو یہ پیغام ملا تو اگلے ہی روز حضورؑ نے ایک وفد مباحثہ کی شرائط طے کرنے کی غرض سے بھجوادیا۔ مباحثہ کے لئے 22؍مئی سے 5؍جون کی تاریخیں مقرر ہوئیں۔ عیسائیوں کی طرف سے پادری عبداللہ آتھم اور مسلمانوں کی طرف سے حضرت مسیح موعودؑ مناظر مقرر ہوئے۔ اس پر وہ ملاّ جنہوں نے عیسائیوں کا چیلنج قبول نہیں کیا تھا وہ آتھم کے پاس گئے اور کہا کہ مرزا صاحب مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرتے۔ چنانچہ 12؍مئی 1893ء کو مارٹن کلارک نے ایک اشتہار دیا کہ چونکہ علماء نے مرزا صاحب کو کافر قرار دیا ہوا ہے اس لئے وہ مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرسکتے۔ اس پر حضورؑ نے اُسے لکھا کہ شرائط کے مطابق مباحثہ کرو یا اپنی شکست کا اعتراف کرلو۔ اور جبکہ رومن کیتھولک بھی پروٹسٹنٹ فرقہ کو کافر اور واجب القتل قرار دیتا ہے تو آپ کو عیسائیت کی نمائندگی کا حق نہیں پہنچتا اور پھر یہ کہ ہم نے اسلام اور قرآن مجید کی وکالت کرنی ہے اور آپ نے اناجیل کی، اس کا فتاویٰ کفر سے کوئی تعلق نہیں۔ چنانچہ یہ مباحثہ منعقد ہوا جو پندرہ دن جاری رہا اور ’’جنگ مقدس‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے دوران عیسائیوں نے اپنی خفّت مٹانے کے لئے چند لولے لنگڑے اور اندھے حضورؑ کے سامنے پیش کرکے کہا کہ اگر آپؑ کو مسیح ہونے کا دعویٰ ہے تو ہمارے مسیح کی طرح آپ بھی ان پر ہاتھ پھیر کر انہیں تندرست کردیں۔ اس پر حضور علیہ السلام نے جواب دیا کہ ہمارے نزدیک تو مسیح علیہ السلام کے معجزات کا رنگ ہی اَور تھا۔ لیکن انجیل میں لکھا ہے کہ اگر تم میں رائی برابر بھی ایمان ہوگا تو تم مجھ سے بھی بڑھ کر عجیب کام کرسکتے ہو۔ پس اب یہ مریض مَیں آپ کے سامنے پیش کرکے کہتا ہوں کہ اگر آپ میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہے تو ان پر ہاتھ پھیر کر اچھا کردیں۔ اس طرح ہم یقین کرلیں گے کہ آپ کا مذہب سچا ہے۔ اس طرح عیسائی ہر پہلو سے اس مباحثہ کے نتیجہ میں شکست سے ہمکنار ہوگئے۔
مسلمانوں میں سے عیسائی ہوجانے والے بہت سے افراد اس مباحثہ کے نتیجہ میں عیسائیت سے تائب ہوگئے۔ ان میں کرنل الطاف علی خان صاحب رئیس کپور تھلہ بھی شامل تھے۔ اسی مباحثہ کے آخری دن حضرت مسیح موعودؑ نے آتھم کے بارہ میں پیشگوئی بھی فرمائی جسے سُن کر اُس نے جلسہ میں کانوں کو ہاتھ لگائے اور توبہ کی اور کہا کہ اُس نے آنحضرتﷺ کی گستاخی اور بے ادبی نہیں کی۔
اہلحدیث سے مباحثہ:-
حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ کے نتیجہ میں جب مسلمانوں کے کئی سنجیدہ اور پاک طینت علماء نے آپؑ کو قبول کرنے کی سعادت پائی وہاں اکثریت نے کجروی اختیار کی۔ چنانچہ حضورؑ نے عوام کو گمراہی سے بچانے کے لئے 26؍مارچ 1891ء کو ایک اشتہار لدھیانہ سے شائع فرمایا جس میں تمام علماء بالخصوص مولوی محمد حسین بٹالوی، مولوی رشید احمد گنگوہی، مولوی عبدالجبار غزنوی، مولوی عبدالرحمن لکھوکے والے ، مولوی شیخ عبداللہ تبّتی، مولوی عبدالعزیز لدھیانوی اور مولوی غلام دستگیر قصوری کو تحریری مباحثہ کا چیلنج دیا۔ ان میں سے سوائے مولوی محمد حسین بٹالوی کے کسی نے اس چیلنج کو قبول نہ کیا۔
مولوی رشید گنگوہی صاحب پر جب بہت دباؤ ڈالا گیا تو وہ تقریری مباحثہ کے لئے اس شرط پر رضامند ہوئے کہ مباحثہ لاہور کی بجائے سہارنپور میں ہوگا۔ اگرچہ حضورؑ کی خواہش تھی کہ چونکہ لاہور دارالعلوم اور مخزن علم ہے اور یہاں ہر مذہب و ملّت کے لوگ موجود ہیں اس لئے مباحثہ یہاں منعقد ہو۔ تاہم حضورؑ نے گنگوہی صاحب کو لکھوایا کہ ہم سہارنپور آجائیں گے ، آپ سرکاری انتظام کرلیں۔ لیکن گنگوہی صاحب نے اس کا جواب صرف یہ دیا کہ مَیں انتظام کا ذمہ دار نہیں ہوسکتا اور پھر بار بار یاددہانی کے باوجود چُپ سادھ لی۔
صرف محمد حسین بٹالوی صاحب نے مباحثے کی دعوت قبول کی اور لدھیانہ پہنچے۔ مباحثہ سے قبل وہاں کے ایک دوست مولوی نظام الدین صاحب (جو اُس وقت احمدی نہ تھے) نے بٹالوی صاحب سے پوچھا کہ کیا قرآن مجید میں حیات مسیح سے متعلق کوئی آیات ہیں؟۔ مولوی صاحب نے جواب دیا بیس تیس ہیں۔ چنانچہ مولوی نظام الدین صاحب وہاں سے حضور علیہ السلام کے پاس تشریف لائے اور کہا کہ اگر مَیں مسیح ناصری علیہ السلام کی حیات کے متعلق بیس تیس آیات پیش کردوں تو کیا آپ مان لیں گے۔ حضورؑ نے فرمایا کہ اگر ایک آیت ہی پیش کردیں تو مَیں قبول کرلوں گا۔ چنانچہ وہ خوشی خوشی واپس بٹالوی صاحب کے پاس پہنچے اور کہا کہ مَیں مرزا صاحب کو ہرا آیا ہوں۔ اب مجھے جلدی سے وہ بیس آیات نکال دو۔ یہ سن کر بٹالوی صاحب گھبراکر کھڑے ہوگئے اور اپنا عمامہ سر سے اُتار کر کہا کہ تُو مرزا کو ہرا کر نہیں آیا، ہمیں ہرا کے آیا ہے، مَیں مدت سے مرزا کو حدیث کی طرف لارہا ہوں اور وہ مجھے قرآن شریف کی طرف کھینچتا ہے۔ قرآن شریف میں اگر کوئی ایسی آیت ہوتی تو ہم کبھی کی پیش کردیتے۔ یہ سُن کر مولوی نظام الدین صاحب اٹھے اور واپس حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا ماجرا بیان کرکے عرض کی: جدھر قرآن شریف ہے، اُدھر ہی مَیں ہوں۔
ان حالات میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب سے ایک تحریری مباحثہ شروع ہوا جو (20 سے 29؍جولائی 1891ء یعنی) دس دن جاری رہا۔ اس میں حضورؑ کو نمایاں فتح ہوئی اور آپؑ نے بعد ازاں اس مباحثہ کی کارروائی بھی شائع کروادی۔ اس مباحثہ کے کئی ماہ بعد دلّی میں منعقد ہونے والے ایک جلسہ عام میں بہت سے علماء نے بٹالوی صاحب کو اپنی شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پوچھا کہ جب اُن کے پاس مرزا صاحب کا مقابلہ کرنے کے لئے کچھ نہیں تھا تو اس مباحثہ کی ضرورت کیا تھی اور پھر مباحثہ کے بعد مرزا صاحب نے تو اس مباحثہ کی روداد شائع کروادی لیکن اُنہیں کیوں اس کی جرأت نہیں ہوئی وغیرہ۔
مضمون نگار نے اپنے مضمون کے دوسرے حصہ میں معاندین سے مباہلہ کرنے کے ضمن میں لیکھرام (ہندو) اور ڈوئی (عیسائی) سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور علماء سوء سے سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مباہلوں کا اختصار سے ذکر کیا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں