جماعت احمدیہ کی سو سالہ طبی خدمات
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12 فروری 1998ء میں محترم مولانا محمد اسماعیل منیر صاحب کا مضمون روزنامہ الفضل ربوہ ’’جشن تشکر نمبر1989ء‘‘ سے منقول ہے جس میں جماعت احمدیہ کی صدسالہ طبی خدمات کا بہت عمدگی سے احاطہ کیا گیا ہے۔گوربوہ میں ایک شاندار ہسپتال کے علاوہ پاکستان کے کئی دورافتادہ علاقوں میں بھی جہاں پینے کا پانی بھی میسر نہیں ہے وہاں حضور انور کے ارشاد پر احمدی رضاکاران ہومیو ڈسپنسریوں کے ساتھ سرگرم عمل ہیں۔ لیکن بیرونی دنیا میں خدمات کا باقاعدہ آغاز 1960ء میں ہوا جب کیپٹن ڈاکٹر شاہنواز صاحب کو بواجے بو سیرالیون بھجوایا گیا۔
1961ء میں ڈاکٹر سید محمد یوسف صاحب نے لیگوس (نائیجیریا) میں کلینک کا آغاز کیا اور جلد ہی ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب نے کانو (نائیجیریا) میں احمدیہ کلینک کی بنیاد رکھی۔ 1968ء میں ڈاکٹر سعید احمد صاحب نے کاعور (گیمبیا) میں کلینک کھولا۔
ان احمدیہ کلینکس کو اتنی پذیرائی حاصل ہوئی کہ 1970ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثالثؒ نے اپنے پہلے دورہ افریقہ میں ہی نصرت جہاں آگے بڑھو پروگرام کا اعلان فرمادیا۔ چنانچہ اس پروگرام کے تحت چند ہی سالوں میں احمدیہ ہسپتالوں اور سکولوں کی تعداد اور خدمات میں زبردست انقلابی ترقی ہوئی۔
اللہ تعالیٰ نے کئی مواقع پر جماعت کی تائید کے معجزاتی نشانات بھی دکھائے۔ بارہا ایسے مریض جو لاعلاج قرار دیئے جاچکے تھے یا انہیں بیرون ملک بھجوانے کا پروگرام تھا، اللہ تعالیٰ نے احمدی ڈاکٹروں کے ہاتھوں انہیں شفا بخشی۔
جب جماعت احمدیہ کو ٹیچی مان (غانا) میں احمدیہ ہسپتال کھولنے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی تو ایک واقعہ نے انتظامیہ کو مجبور کردیا کہ وہ اجازت دیدے۔ ڈاکٹر بشیر احمد صاحب کے ٹیچی مان پہنچنے کے چند ہفتے بعدایک عیسائی ہسپتال کا واحد یورپین ڈاکٹر اچانک فوت ہوگیا اور دوسرے کیتھولک ہسپتال کا ڈاکٹر بیمار پڑگیا۔ اسی دوران ایک مریضہ کا خطرناک کیس آگیا جس پر انہیں مجبوراً رات کو ڈاکٹر بشیر احمد صاحب سے درخواست کرنی پڑی۔ آپ نے مریضہ کا اپریشن کیاجو خدا کے فضل سے کامیاب رہا اور کلینک کا اجراء بھی ہوگیا۔