جناب فیض عالم خان صاحب ۔ فیض چنگوی
مکرم فیض صاحب کے آباء کا سلسلہ ہندو راجپوت راجہ اننگ پال سے جا ملتا ہے۔ اُس راجہ کی بیسویں پشت مسلمان ہوئی اور سب سے پہلا شخص جس نے اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کی وہ راجہ پٹن پال کا بیٹا تھا جس کا اسلامی نام بنگش خان رکھا گیا۔ اُسی کے نام پر فیض صاحب کا آبائی گاؤں چنگا بنگیال آباد ہوا جو ضلع راولپنڈی میں واقع ہے۔
محترم فیض صاحب کے نانا حضرت حکیم خواجہ کرم داد خان صاحبؓ، ریاست جموں و کشمیر کے شاہی طبیب تھے۔ اُن کا انتقال 1950ء میں 117 برس کی عمر میں ہوا۔ جبکہ اُن کے بھائی حضرت مولوی فضل خان صاحب کو بھی 313 صحابہ میں شمولیت کا شرف حاصل تھا اور وہ اردو، عربی، فارسی اور انگریزی پر عبور رکھتے تھے اور کئی کتب کے مصنف بھی تھے۔ فیض صاحب کا بچپن ان کے ہی زیر سایہ پروان چڑھا اور آپ نے پانچویں میں زیر تعلیم ہونے کے زمانہ میں ہی اشعار کہنے اور مجالس میں سنانے شروع کردئے۔ جب آپ تلاش معاش کے سلسلہ میں بنگال چلے گئے تو شعر و شاعری کا سلسلہ اس وقت تک کیلئے منقطع ہوگیا جب آپ کی شادی ہوئی۔ آپ کی اہلیہ اردو کی اچھی ادیبہ اور اسلام و احمدیت سے گہرا شغف رکھنے والی اور اعلیٰ اخلاق کی حامل تھیں۔ 1940ء میں فیض صاحب بنگال سے شملہ آگئے جہاں سید ضمیر حسین جعفری صاحب کی شاگردی اختیار کرلی۔ پھر آپ کا کلام متعدد رسائل و اخبارات میں متواتر شائع ہوتا رہا۔
فیض صاحب نے مختلف جماعتی عہدوں پر بھی کام کیا۔ جماعت شملہ کے 5 سال جنرل سیکرٹری اور ایک سال قائد خدام الاحمدیہ رہے۔ کراچی آنے کے بعد مختلف حیثیتوں سے خدمت کی توفیق پائی اور رسالہ ’’المصلح‘‘ کے مدیر بھی رہے۔ آپ کا مختصر ذکر خیر اور نمونہ کلام مکرم سلیم شاہجہانپوری صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10؍فروری 1999ء میں شامل اشاعت ہے۔ فیض صاحب کا منظوم کلام آپ کے بیٹے مکرم ہاشم سعید صاحب آف یوکے نے ’’تقدیس افکار‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ آپ نے دل کی گہرائی سے اپنا کلام کہا ہے جس میںپُرگوئی اور زود گوئی کے علاوہ حقیقت آفرینی ا ور جذبات نگاری بہت نمایاں ہے۔ نمونہ کلام ذیل میں ہدیہ قارئین ہے:
ہے اگر ہوشیار و دانا مثلِ دیوانہ گزر
زندگی کی رہ گزر سے بے نیازانہ گزر
رنگ و بو کے یہ مناظر ہیں فریب زندگی
مسکرا کر دیکھ ان کو مثل بیگانہ گزر
اہل ثروت کی خوشی کو دیکھ کر غمگیں نہ ہو
غور کر، کرتے ہیں کیسے اہل غمخانہ گزر
پیری میں دوسروں کا سہارا ملے گا کیا
دینے لگے ہیں مجھ کو مرے دست و پا فریب
نرالا فلسفہ پیدا کیا روشن خیالی نے
نئی منطق میں نسلِ نو کے برخوردار الجھے ہیں
زمانے سے الجھ کر فیض کھو بیٹھے وقار اپنا
جو سچ پوچھو تو نااہلوں سے ہم بیکار الجھے ہیں