جنگ عظیم اوّل سے متعلق حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی پیشگوئیاں

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6،7 و 8؍اپریل 1999ء میں تین اقساط میں مکرم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب کے قلم سے ایک طویل مضمون شامل اشاعت ہے جس میں حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئیوں کے حوالہ سے جنگ عظیم اوّل کے حالات و نتائج کو بیان کیا گیا ہے۔
پیشگوئیوں کا وسیع دائرہ
حضرت اقدسؑ کو اپریل 1904ء کے بعد تقریباً دو سال تک بار بار ایسے الہات ہوئے جن میں ایک خوفناک عالمی تباہی کی خبر دی گئی۔ مثلاً اپریل 1904ء میں الہام ہوا: ’’کوریا خطرناک حالت میں ہے۔ مشرقی طاقت‘‘۔ 8؍جون 1904ء کو عربی زبان میں ایک الہام ہوا جس کا ترجمہ ہے: ’’عارضی رہائش کے بھی مکانات مٹ جائیں گے اور مستقل رہائش کے بھی۔ مَیں تمام اُن لوگوں کی جو اِس گھر میں رہتے ہیں حفاظت کروں گا…۔‘‘
1905ء میں حضورؑ نے ایک اشتہار میں ایک نشان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:-
’’وہ قیامت کا زلزلہ ہوگا … وہ حادثہ زلزلہ ہو یا کچھ اَور ہو، قریب ہو یا بعید ہو، پہلے سے بہت خطرناک ہے۔ سخت خطرناک ہے۔ اگر ہمدردی مخلوق مجھے مجبور نہ کرتی تو مَیں بیان نہ کرتا۔‘‘
اسی طرح حضور علیہ السلام اپنی کتاب ’’حقیقۃالوحی‘‘ میں بھی فرماتے ہیں:-
’’اے یورپ تُو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تُو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ مَیں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں‘‘۔
1905ء میں حضورؑ نے ’’براہین احمدیہ‘‘ جلد پنجم میں تحریر فرمایا:-
’’اگر خدا تعالیٰ نے اس آفت شدیدہ میں بہت ہی تاخیر ڈال دی تو زیادہ سے زیادہ سولہ سال ہیں، اس سے زیادہ نہیں‘‘۔
دیگر الہامات میں ’’موتا موتی لگ رہی ہے‘‘۔ ’’آہوئے مرگ‘‘۔ ’’زندگیوں کا خاتمہ‘‘۔ ’’لاکھوں انسانوں کو تہ و بالا کردوں گا‘‘۔ شامل ہیں۔
حضرت اقدسؑ نے اپنی ایک نظم میں فرمایا:

رات جو رکھتے تھے پوشاکیں برنگ یاسمن
صبح کردے گی انہیں مثل درختان چنار
ہر مسافر پر وہ ساعت سخت ہے اور وہ گھڑی
راہ کو بھولیں گے مست و بے خود راہوار
مضمحل ہو جائیں گے اس خوف سے سب جن و انس
زار بھی ہوگا تو اس گھڑی با حال زار

مذکورہ الہامات میں موعودہ تباہی کیلئے اگرچہ ’’جنگ‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا تھا لیکن علامات سے اشارہ ملتا تھا کہ یہ تباہی ایک عالمی جنگ کی صورت میں برپا ہو سکتی ہے۔ نیز دو الہامات یہ ظاہر کرتے تھے کہ اُس وقت بحری قوت کو ایک خاص اہمیت حاصل ہوگی۔ وہ الہامات ہیں:- ’’لنگر اٹھا دو‘‘ اور ’’ کِشتیاں چلتی ہیں تا ہوں کُشتیاں‘‘۔

submarine-آٖبدوز

حضورؑ کو یہ الہامات بھی ہوئے: ’’مصالح العرب‘‘ اور ’’بلائے دمشق‘‘۔
سلطنت عثمانیہ کے بارہ میں اس سلسلہ کی پہلی پیشگوئی
ان سب سے قبل 1897ء میں حضورؑ نے ترکی کی سلطنت عثمانیہ اور اس کے بادشاہ سلطان عبدالحمید ثانی کے زوال کی پیشگوئی فرمائی۔ اس پیشگوئی کے ظاہر ہونے کا محرک اسی سلطنت کا ایک سفارتکار حسین کامی تھا۔ اُس نے لاہور میں حضورؑ سے نہایت عاجزی سے ملاقات کی درخواست کی اور اپنے خط کو ’قدوۃالمحققین، قطب العارفین، حضرت پیردستگیر‘ کے القابات سے شروع کیا۔ پھر وہ قادیان میں حضورؑ کی خدمت میں پیش ہوا اور علیحدہ ملاقات میں سلطان عبدالحمید کے لئے ایک خاص دعا کرنے کی درخواست کی اور یہ درخواست بھی کی کہ اگر آسمان سے سلطان کے مستقبل کے متعلق کچھ ظاہر ہوتا ہے تو اسے اس کی اطلاع دی جائے۔ حضورؑنے بعد دُعا اس کی درخواست کے جواب میں تحریر فرمایا کہ سلطان کی سلطنت کی اچھی حالت نہیں ہے اور نصیحتاً فرمایا کہ ’’توبہ کرو تا نیک پھل پاؤ‘‘۔
حسین کامی کو یہ جواب بہت بُرا معلوم ہوا اور وہ بدزبانی کرتا ہوا قادیان سے واپس چلا گیا اور آپؑ کی مخالفت میں ایک خط ’’ناظم الہند‘‘ نامی اخبار میں شائع کروایا۔ اس پر ہندوستان کے بعض اردو اخبارات نے ایک طوفان کھڑا کردیا تو حضورؑ نے بھی اپنی پیشگوئی کو ایک اشتہار میں شائع کردیا۔
دنیامیں حالتِ امن
جس وقت یہ پیشگوئیاں کی گئیں اُس وقت دنیا میں پہلے زمانہ کی نسبت بہت امن تھا۔ بہت سے تنازعات باہمی بات چیت کے ذریعے طے کردیئے گئے تھے۔ افریقہ کی بندربانٹ کا معاہدہ ہوچکا تھا۔ اُنہی دنوں مصر کے علاقہ میں فرانس اور برطانیہ کی فوج میں لڑائی ہوتے ہوتے افہام و تفہیم سے امن میں بدل گئی۔ اُس زمانہ میں دنیا بھر میں امن کی یہ حالت تھی کہ سر ونسٹن چرچل جو اُس وقت فوج میں تھے، اپنی کتاب میں بیان کرتے ہیں کہ اُس امن کے دَور میں جنگ میں شریک ہونے کی خواہش ہر فوجی میں بڑھتی جا رہی تھی اور اگر کہیں کسی چھوٹے سے معرکہ کیلئے فوج کی ضرورت پڑتی تھی تو اُس میں شریک ہونے کیلئے سفارشیں کروائی جاتیں لیکن پھر بھی بہت سے لوگ باوجود سفارش کے جنگ میں شریک نہ ہوسکتے تھے۔
مشرقی طاقت کا ظہوراور کوریا کی نازک حالت
حضورؑ کی پیشگوئی کے مطابق ایک مشرقی طاقت اس طرح ظہور میں آئی کہ 1894ء میں جاپان نے نو ماہ کی طویل جنگ کے بعد چین کے بعض علاقوں اور کوریا پر قبضہ کرلیا تو جرمنی، فرانس اور روس نے جاپان کے نام اپنے مشترکہ خط میں لکھا کہ مقبوضہ علاقے چین کو واپس کردئے جائیں۔ جاپان اِن طاقتوں کے سامنے اتنا بے بس تھا کہ اُس نے یہ علاقے واپس کردئے۔ لیکن چین کے علاقے مغربی ممالک نے چین کے سپرد کرنے کی بجائے مختلف معاہدوں کے ذریعہ اپنے تسلّط میں لے لئے۔ پھر روس نے چین کے مشرقی ساحل کو اپنے ریل کے نظام سے اس طرح منسلک کردیا کہ جاپان کی سالمیت براہ راست خطرہ سے دوچار ہوگئی۔ جب جاپان کے احتجاج نے بھی روس پر کوئی اثر نہ کیا تو جاپان نے فروری 1904ء میں کوریا سے ایک معاہدہ کے ذریعہ اپنی فوج وہاں اتار دی۔ روس نے بھی اپنی فوج وہاں جمع کرنا شروع کردی۔ دونوں فوجوں میں جنگ شروع ہوئی تو مسلسل کئی ماہ تک جاری رہی۔ اس جنگ میں جاپان نے روس کو پے در پے شکستیں دیں۔ روس نے اپنا بحری بیڑہ روانہ کیا تو جاپانی بحریہ نے اُسے راستہ میں ہی غرق کردیا۔ چنانچہ جاپان نے کوریا اور چین کے بعض علاقوں پر اپنا تسلّط قائم کرلیا اور اس طرح حضرت اقدسؑ کے الہام ’’کوریا خطرناک حالت میں ہے۔ مشرقی طاقت‘‘ کے مطابق ایک مشرقی طاقت ابھر کر سامنے آگئی۔ اور کوریا کی نازک حالت بھی اُس وقت ظاہر ہوگئی جب مذکورہ جنگ میں فتح کے چھ سال بعد جاپان نے کوریا کی آزادی مکمل طور پر ختم کردی۔ کورین زبان اور تاریخ کی تعلیم ختم کردی گئی اور کوریا میں جاپانی زبان رائج کی جانے لگی۔کورین فوج بھی ختم کردی گئی اور مقامی کسانوں کی زمینیں چھین کر جاپانیوں کے حوالہ کی جانے لگیں۔ عوام پر کورین نام ترک کرکے جاپانی نام اپنانے کیلئے دباؤ ڈالا جانے لگا۔ کوریا چھتیس سال تک جاپان کے زیرتسلّط مصائب کا شکار رہا اور جب جاپان نے جنگ عظیم دوم میں شکست کھائی تو کوریا آزاد تو ہوا لیکن اُسے دو حصوں میں بانٹ دیا گیا۔ ایک حصہ روس اور چین جبکہ دوسرا امریکہ کے زیراثر آگیا۔ جب کورین راہنماؤں کی طرف سے دونوں حصوں کو ایک کرنے کی کوشش کی گئی تو بڑی طاقتوں نے منصوبہ کے تحت دونوں حصوں کو اس طرح لڑادیا کہ آپس کی جنگ میں لاکھوں کورین مارے گئے۔ چالیس فیصد صنعت اور ایک تہائی گھر تباہ ہوگئے۔ کوریا کی تاریخ کے ان سیاہ ترین ابواب کی خبر حضرت اقدسؑ کے الہام میں دی جاچکی تھی۔
جنگ عظیم اوّل کا آغاز
حضرت اقدس علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے بعد بین الاقوامی سیاست دو گروہوں میں بٹ گئی تھی۔ ایک طرف فرانس، روس اور برطانیہ ہوگئے۔ دوسری طرف جرمنی اور آسٹریا کے ساتھ ترکی بھی شامل ہوگیا۔ اٹلی کبھی اِدھر کبھی اُدھر ملتا رہا۔

آسٹریا کے جن علاقوں میں سرب آباد تھے، اُن پر سربیا اپنا قبضہ چاہتا تھا لیکن آسٹریا کی طاقت کے سامنے بے بس تھا البتہ روس کی ہمدردیاں سربیا کے ساتھ تھیں۔ جون 1914ء میں آسٹریا کے
ولی عہد فرانز فرڈیننڈ کو سربوں نے اُس وقت قتل کردیا جب وہ بوسنیا کا دورہ کر رہے تھے۔ اس پر آسٹریا نے ذلّت آمیز شرائط سربیا کے سامنے پیش کیں اور نہ ماننے پر حملہ کرنے کی دھمکی دی۔ اس کے ساتھ ہی جرمنی نے آسٹریا اور روس نے سربیا کے حق میں بیان داغنے شروع کردئے۔ اگرچہ برطانیہ نے صلح کی کوشش کی لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا اور آسٹریا نے جولائی میں سربیا پر بمباری شروع کردی۔ روس نے اپنی فوج آسٹریا کی سرحد پر بھیج دی۔ یکم اگست کو جرمنی نے آسٹریا کی حمایت میں روس کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا۔ جب فرانس نے جرمنی کے خلاف جنگ کا اعلان کیا تو برطانیہ بھی فرانس اور روس کی مدد کیلئے جنگ میں کود گیا۔ اس جنگ میں ترکی نے جرمنی کا ساتھ دینے کا اعلان کیا اور جاپان نے برطانیہ کا۔ اٹلی اور امریکہ ابھی جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے۔
جنگ کی تباہ کاریاں
جنگ عظیم اوّل انسانی تاریخ کی پہلی عظیم ترین تباہ کاری تھی جو چار سال جاری رہی۔ اس میں صرف روس کے بیس لاکھ سے زائد فوجی مارے گئے۔ جرمنی کے بھی بیس لاکھ، فرانس اور اس کی نوآبادیوں کے بارہ لاکھ اور برطانیہ اور اس کی نوآبادیوں کے دس لاکھ افراد مارے گئے۔ امریکہ کے ایک لاکھ پندرہ ہزار فوجی مارے گئے۔ مجموعی طور پر اسّی لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے اور دو کروڑ زخمی ہوئے۔
جنگ کے سیاسی نتائج
سیاسی لحاظ سے اس جنگ کے نتیجہ میں آسٹریا جیسی مضبوط سلطنت اپنی عظمت کھو بیٹھی۔ جرمنی کو بھی شکست کھاکر جھکنا پڑا اور وہاں سے بادشاہت رخصت ہوگئی۔ اسی طرح سینکڑوں سال سے قائم سلطنت عثمانیہ کی صف لپیٹ دی گئی۔ روسی بادشاہ زار جس کے آباء کئی سو سال سے تخت نشین چلے آتے تھے، تخت سے محروم ہوکر حالتِ زار کو پہنچا۔
بحری قوّت کا کردار
اس جنگ میں بحری قوت نے فیصلہ کُن کردار ادا کیا۔ برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے بحری قوت میں برتری کی وجہ سے 1914ء میں ہی جرمن کی بہت سی نوآبادیوں پر قبضہ کرلیا۔ بعض جگہوں پر جاپان نے قبضہ کرلیا۔ برطانیہ نے جرمنی کی بحری ناکہ بندی کرکے اقتصادی طور پر جرمنی کو بہت نقصان پہنچایا۔ اگرچہ جرمن آبدوزوں نے بعض جہاز ڈبودئے جن میں امریکی جہاز بھی شامل تھے۔ اسلئے امریکہ اپنی بحریہ کو اتحادیوں کی مدد کیلئے لے آیا۔ چنانچہ کئی سمندروں اور کئی بندرگاہوں سے یہ جنگ اس طرح لڑی گئی کہ الہامات ’’لنگر اٹھادو‘‘ اور ’’کِشتیاں چلتی ہیں تا ہوں کُشتیاں‘‘ بڑی شان سے پورے ہوئے۔ اگرچہ جرمن برّی فوج دشمن کی زمین پر قابض تھی لیکن بحری شکستوں کی وجہ سے جرمنی کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہونا پڑا۔
ایک خوفناک بحری معرکہ اور جنگ کا فیصلہ کُن مرحلہ
جرمنی پر آخری اور کاری ضرب اُس وقت لگی جب جرمن بحریہ کا یہ خفیہ پیغام اتحادیوں کے ہاتھ لگ گیا کہ جرمنی ایک بڑے بحری حملہ کی تیاری کر رہا ہے۔ چنانچہ برطانوی بحریہ کے ڈیڑھ سو مختلف جنگی جہاز اور تین آبدوزیں جرمنی سے مقابلہ کیلئے روانہ ہوئے۔ دونوں بحری فوجیں آمنے سامنے آئیں اور جنگ شروع ہوتے ہی تین برطانوی جہاز غرق ہوگئے اور ایک میں آگ لگ گئی۔ پھر گھمسان کی جنگ شروع ہوئی اور رات کے وقت جب اندھیرے کی وجہ سے جنگ رُکی تو جرمن بحریہ کے ایک طرف انگلستان کا ساحل تھا اور دوسری طرف برطانوی بیڑہ اُس کا محاصرہ کیے ہوئے تھا۔ راتوں رات جرمن بیڑہ جُل دے کر نکل بھاگا اور جرمنی کے ساحل تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ اگرچہ اس جنگ میں جرمنی کے مقابلہ میں برطانیہ کا نقصان بہت زیادہ ہوا تھا لیکن برطانیہ کی برتری اور ناکہ بندی قائم تھی۔ جب جرمنی نے شکست تسلیم کرلی تو معاہدہ کی ایک شق یہ بھی تھی کہ جرمن بحریہ اپنے جہازوں کو فاتح فوج کے سپرد کردے گی۔ لیکن اس پر عمل کرنے کی نوبت اس لئے نہ آئی کہ جرمنی کی بحریہ کو شکست کے باوجود ہارنے کا سلیقہ ضرور آتا تھا۔ چنانچہ اُس نے اپنے ہاتھ سے اپنے بحری بیڑے کو غرق کردیا لیکن دشمن کے سپرد نہیں کیا۔

بحری جہاز

زار بھی ہوگا تو…
حضور علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق روسی بادشاہ زار کابہت برا انجام ہوا۔ یہ خاندان ساڑھے تین سو سال سے روس کے تاج و تخت کا مالک تھا اور دو سو چھوٹی بڑی قومیں اس کے زیر اثر تھیں جو زمین کے چھٹے حصہ پر پھیلی ہوئی تھیں۔ روسی قانون کے مطابق زار ایک مطلق العنان اور غیرمحدود اختیارات کا مالک فرمانروا تھا۔ لیکن ملک میں غربت اور فاقوں کی حکمرانی تھی۔ غلامی کا دَور دَورہ تھا۔ کسی طبقہ نے پیٹ کے ہاتھوں مجبور ہوکر اگر آواز اٹھائی تو فوج کے ذریعہ اسے کچل دیا گیا۔ جس سال حضورؑ نے زار کے بارہ میں پیشگوئی شائع فرمائی اُسی سال زار نے بعض مثبت اصلاحات کا اعلان کیا جن کے مطابق پریس کو نئی آزادیاں ملیں اور فیصلہ کیا گیا کہ ایک منتخب پارلیمینٹ بھی قائم کی جائے۔ 1906ء کے آغاز میں پارلیمینٹ منتخب کی گئی۔ لیکن تین ماہ بعد ہی جب ملک میں امن قائم ہونا شروع ہوا تو پارلیمینٹ برطرف کردی گئی۔ پھر دوسری پارلیمینٹ منتخب ہوئی اور کچھ عرصہ بعد برطرف کردی گئی۔ پھر انتخابی قوانین میں تبدیلیوں کے بعد تیسری پارلیمینٹ منتخب ہوئی جو نسبتاً زیادہ عرصہ زندہ رہی لیکن اُسے کوئی خاص طاقت حاصل نہ تھی۔
جب جنگ شروع ہوئی تو قوم نے زار اور ملک کا بھرپور ساتھ دیا۔ اگرچہ روس کے پاس اسلحہ کم تھا لیکن افرادی قوت بہت زیادہ تھی۔ لیکن جنگ کا آغاز ہی روس کے لئے تباہ کُن ثابت ہوا۔ لاکھوں فوجی دشمن کی قید میں چلے گئے اور لاکھوں زخمیوں کی مرہم پٹی بھی نہ کی جاسکی۔ روسی حکومت اپنی فوج کو بندوقیں ہی نہیں جوتے مہیا کرنے سے بھی قاصر تھی۔ شہروں میں خوراک اور ایندھن ختم ہوگیا۔ دو سال میں ہی لوگوں کی بے چینی زار کے لئے نفرت میں بدل گئی۔ لوٹ مار شروع ہوئی تو دارالحکومت میں موجود فوجی بھی قابو سے باہر ہوگئے۔ پھر زار محاذِ جنگ کے دورے پر چلا گیا تو پارلیمینٹ کے صدر نے اُسے تار بھیجی کہ صورتحال بہت بگڑ چکی ہے، جو کچھ کرنا ہے ابھی کرلیں، کل تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ زار نے اس پیغام کے جواب میں پارلیمینٹ کو برطرف کردیا۔ یہ احمقانہ فرمان پڑھ کر پارلیمینٹ نے زار کو برطرف کرکے ایک عبوری حکومت قائم کردی اور زار کو نظربند کرکے سائبیریا بھجوا دیا جہاں وہ اپنے مخالفین کو بھجوایا کرتا تھا۔ عبوری حکومت شروع ہی سے ایک کمزور حکومت تھی چنانچہ کمیونسٹوں کی قوت میں تیزی سے اضافہ ہوا اور انہوں نے چند ماہ بعد حکومت کا تختہ اُلٹ دیا اور زار خاندان پر شدید ترین مظالم کا سلسلہ شروع کیا۔ جب یہ خدشہ پیدا ہوا کہ کوئی یورپی طاقت حملہ کرکے زار کو بحال کرنے کی کوشش کرسکتی ہے تو 16؍جولائی 1918ء کی رات زار کے بدنصیب خاندان کو جگایا گیا اور ایک تہ خانہ میں لے جاکر گولیاں برسائی گئیں اور پھر زخمیوں کو سنگینیں مار مار کر ہلاک کردیا گیا۔ لاشوں پر تیزاب چھڑک کر آگ لگادی گئی اور بچی ہوئی ہڈیوں کو نامعلوم مقام پر دبا دیا گیا۔

زار روس اور اُس کے اہل خانہ

سالہا سال تک یہ بھی معلوم نہ ہوسکا کہ ان کو کہاں دفن کیا گیا ہے۔ 1993ء میں ایک قبر کی دریافت کے بعد DNA ٹیسٹ کی بنیاد پر خیال کیا جاتاہے کہ زار کا خاندان اس مقام پر دفن کیا گیا تھا۔ زار کی ایک چھوٹی بیٹی کی ہڈیاں اس قبر سے نہیں ملیں جس کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ وہ قتل ہونے سے بچ گئی تھی۔ البتہ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ پھر وہ کہاں گئی؟!
سلطنت عثمانیہ کا زوال
حضور علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق سلطنت عثمانیہ بھی زوال کا شکار ہوئی۔ یہ سلطنت جو بوسنیا، البانیہ اور بلغاریہ تک پھیلی ہوئی تھی اور آرمینیا، شام، لبنان، عراق، فلسطین، حجاز اور لیبیا کے ساحلی علاقے اس کا حصہ تھے اور ایک بڑی قوت تھی۔ جب پیشگوئی کی گئی تواسی زمانہ میں جرمن فوج کی زیر نگرانی عثمانیہ فوج کی تنظیم نو کی گئی تھی۔ پھر ترکی اور یونان میں جنگ چھڑ گئی تو ترکی نے فتح حاصل کی۔ جرمن بادشاہ نے سلطنت عثمانیہ کا دورہ بھی کیا تھا اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے گہرے دوست بن گئے تھے۔ یہی دوستی جنگ عظیم اوّل میں ایک اتحاد میں بدل گئی جس میں سلطنت عثمانیہ بھی اپنے دوست کے ساتھ ڈوب گئی۔
لیکن اس سے قبل حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی کی صداقت میں کئی واقعات ظاہر ہوئے۔ مثلاً حسین کامی پر غبن کا الزام لگا اور وہ برطرف کیا گیا، اُس کی جائیداد نیلام کی گئی۔ پھر بیسویں صدی کے آغاز پر سلطان عبدالحمید دوئم کی نااہل اور فرسودہ حکومت سے ترک قوم اور فوج میں بے چینی پھیلنے لگی اور جمہوریت کا مطالبہ ہونے لگا۔ سلطان نے پارلیمینٹ کا انتخاب کروادیا تو سلطان کیلئے عوام کی مخالفت حمایت میں بدل گئی۔ لیکن سلطان نے اپنے اختیارات میں کمی برداشت نہیں کی اور سازش کے تحت 13؍اپریل 1909ء کو سلطان کے فوجیوں نے پارلیمینٹ پر قبضہ کرلیا اور سلطان نے پارلیمینٹ کو برطرف کردیا۔ اس پر پارلیمینٹ کی حامی فوج نے استنبول کی طرف پیش قدمی شروع کی اور 27؍اپریل 1909ء کو سلطان کے محل میں داخل ہوکر سلطان کو یہ فقرہ کہا ’’قوم تمہیں برطرف کرتی ہے‘‘۔ اس کے بعد سلطان کے بھائی کو تخت پر بٹھایا گیا لیکن ترکی پر جرمنی کا اثر و رسوخ کم نہ ہوا۔
جب جنگ عظیم شروع ہوئی تو ترکی کے وزیرِ جنگ انور بے نے جرمنی کا اتحادی بننے کے لئے کوششیں شروع کردیں جبکہ وزیرِ داخلہ اور وزیرِ خزانہ نے پوری کوشش کی کہ جنگ سے الگ رہ کر اندرونی اصلاحات اور استحکام کی طرف توجہ کی جائے۔ وقت نے اُن کا خیال درست ثابت کیا لیکن چونکہ اکثر پر جنگی فتوحات کا جنون سوار تھا۔
چار سال کے بعد جب ترکی کو شکست ہوئی تو فاتح اتحادی گدّھوں کی طرح سلطنت عثمانیہ کے مردہ جسم پر ٹوٹ پڑے۔ برطانیہ کے حصہ میں عراق آیا۔ شام اور جنوبی آرمینیا فرانس کے تسلّط میں چلے گئے۔ باقی عرب علاقے آزاد کردیئے گئے اور ترکی کی خودمختاری اس طرح ختم کردی گئی کہ شہزادہ وحیدالدین کو برطانیہ کا کٹھ پتلی سلطان بناکر تخت نشین کردیا گیا۔ اس پر اتا ترک کی قیادت میں آزادی کی جدوجہد شروع ہوئی جس کے نتیجہ میں آزاد ترک جمہوریہ کا آغاز ہوا۔
’’بلائے دمشق‘‘
حضور علیہ السلام کا الہام ’’بلائے دمشق‘‘ اس طرح پورا ہوا کہ فرانس نے اگرچہ شام پر تسلّط کا پروانہ ’’لیگ آف نیشنز‘‘ سے حاصل کرلیا تھا لیکن شامی عوام فرانس کا محکوم بننے پر راضی نہ ہوئے۔ چنانچہ 1925ء میں بغاوت پھوٹ پڑی۔ فرانسیسی فوجوں نے بغاوت کچلنے کے لئے دمشق پر توپوں اور جہازوں سے اندھادھند بمباری شروع کردی جس کے نتیجہ میں بے شمار لوگ ہلاک ہوئے اور عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔ اس بربریت نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا اور فرانس میں بھی احتجاج شروع ہوگیا۔ اس پر فرانس نے اپنے جنرل کو شام سے واپس بلا لیا لیکن کچھ عرصہ بعد ہی دوبارہ دمشق کو سزا دینے کا فیصلہ کیا گیا اور شہر پر ایک بار پھر اندھا دھند بم برسائے گئے۔ دمشق ایک قدیم شہر ہے لیکن ایسی تباہی پہلے اس پر کبھی نہیں آئی تھی۔
خدا سے ڈ رو
حضرت مسیح موعودؑ نے آئندہ ہونے والی جن جنگوں کی پیشگوئیاں فرمائی تھیں وہ صرف پہلی جنگ عظیم تک محدود نہیں تھیں بلکہ پانچ زلزلوں کا انذار کیا تھا۔ لیکن وہ زلزلہ جس نے سولہ سال کے اندر ظاہر ہونا تھا پہلی جنگ عظیم کی صورت میں ظاہر ہوا اور اس کی علامات پوری ہوکر دنیا کے لئے نشان بنیں۔ حضورؑ فرماتے ہیں:-
’’سو اے سننے والو! تم سب یاد رکھو اگر یہ پیشگوئیاں صرف معمولی طور پر ظہور میں آئیں تو سمجھ لو کہ مَیں خدا کی طرف سے نہیں ہوں۔ لیکن اگر ان پیشگوئیوں نے ایک تہلکہ برپا کردیا اور شدت گھبراہٹ سے دیوانہ سا بنا دیا اور اکثر مقامات میں عمارتوں ا ور جانوں کو نقصان پہنچایا تو تم اس خدا سے ڈرو جس نے میرے لئے یہ سب کچھ کر دکھایا‘‘۔ (تجلّیات الٰہیہ صفحہ4)
تجرباتی ایٹمی دھماکہ

اپنا تبصرہ بھیجیں