جوں ہی اوجھل ہوا مہ تاباں = اِک نیا چاند نُور بار ہوا

“سیدنا طاہر نمبر” جماعت احمدیہ یوکے

سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات کے بعد ماہنامہ ’’اخبار احمدیہ‘‘ کے مئی/جون 2003ء کے شمارہ میں تفصیل سے اُن ایمان افروز حالات کی عکاسی کی گئی تھی جن کا نظارہ لندن میں ہزاروں افراد کے علاوہ ایم ٹی اے لاکھوں ناظرین بھی کر رہے تھے۔ ذیل میں اس شمارہ میں شامل دو مضامین سے اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں۔

(خاکسار محمود احمد ملک کے مضمون کی تلخیص)

برطانیہ کے وسیع و عریض دارالحکومت لندن کے لاکھوں باسیوں نے اپریل 2003ء میں ہونے والے ایسے ایک غیرمعمولی واقعہ کا شاید کوئی نوٹس نہ لیا ہو جس نے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کروڑوں افراد کی زندگیوں میں ایک عظیم انقلاب برپا کردیا۔ غم کے گہرے بادلوں سے باران رحمت لے کر آنے والا ایک ایسا انقلاب جس کے دوران ہر ہر لمحے پر الٰہی تقدیر کا تصرف تھا اور جس کے نتیجہ میں کروڑوں احمدیوں کا خوف نہ صرف امن میں بدل دیا گیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق اُن کے ایمانوں میں تقویت کے غیرمعمولی سامان بھی پیدا فرمائے۔
18؍اپریل 2003ء کو حسب معمول حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد فرمودہ خطبہ جمعہ سنا اور حضورؒ کی اقتداء میں جمعہ اور پھر عصر کی نماز بھی ادا کرنے کی توفیق پائی۔ جمعہ کی شام کا انتظار اس لئے بھی ہوتا تھا کہ ہر دو ہفتے بعد اپنے محبوب کے رُخ روشن کی زیارت زیادہ قریب سے ہوجاتی تھی۔ حضورؒ کے علم و معرفت سے لبریز ارشادات کے ساتھ ساتھ تبسم آمیز برجستہ جملے محفل کو کشت زعفران بنا دیتے۔ ایسی خوبصورت اور پاکیزہ محفل کو ’’شمع اور پروانہ‘‘ جیسی تمثیلوں اور استعاروں سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی کہ اِن پاکیزہ محفلوں کا تو رنگ ہی کچھ اَور تھا۔ یہاں تو شمع خلافت ہی محور عقیدت و محبت تھی۔ اور یہ شمع ایسی تھی جو اپنے پروانوں کو موت کی بجائے روح پرور اور زندگی بخش کلمات سے فیضیاب کر رہی تھی۔… مجلس عرفان کی ہر شام ہی ایسی تھی کہ جس کی کیفیت کچھ اَور ہی ہوا کرتی تھی۔ ناقابل بیان سرور اس مجلس سے وابستہ تھا۔ کچھ ایسا ہی اُس روز بھی تھا اور ذہن کے کسی گوشہ میں یہ خیال بھی نہ آیا تھا کہ ایسی شام اب صرف یادوں کا حصہ بن جانے والی ہے۔
اُن ذہنوں سے 18؍اپریل کی شام کبھی فراموش نہیں ہوسکتی جنہوں نے اُس روز مجلس عرفان میں حضورؒ کی قربت کی سعادت حاصل کی تھی۔ اگرچہ حضورؒ کی صحت اور جسم میں کمزوری کا اظہار کافی عرصہ سے ہو رہا تھا جو کام کی زیادتی اور تھکاوٹ سے بڑھ کر نمایاں بھی ہو جاتا، کچھ ایسا ہی اس مجلس عرفان میں بھی تھا لیکن یہ تو گمان بھی نہ تھا کہ چند ہی گھنٹوں میں ایک قیامت گزر جائے گی۔ حضورؒ تو عزم و ہمت کے ایسے بلند مینار تھے جو اپنی بیماری اور کمزوری کو کبھی خاطر میں نہ لاتے تھے۔ قوت عمل کا عظیم الشان مظاہرہ آپؒ کی ہر ادا میں نمایاں تھا۔ آپؒ بلاشبہ ایک ایسا زرّیں عہد تھے جو نہ صرف تاریخ احمدیت بلکہ تاریخ انسانی کے صفحات میں ہمیشہ سنہری حروف میں تحریر کیا جاتا رہے گا۔
19؍ اپریل کی صبح جب مَیں دفتر پہنچا تو اس وقت تک وہ سانحہ گزر چکا تھا جس کو تسلیم کرنے کے لئے دل و دماغ کبھی آمادہ نہ تھے۔ جونہی اطلاع ملی تو کچھ دیر ذہن اس خبر کو جھٹلانے کی کوشش میں لاشعوری طور پر مصروف رہا۔ انٹرنیٹ کے ذریعہ MTA کی نشریات جاری تھیں۔ اگرچہ اس خبر کے جاری ہونے کے چند ہی منٹ بعد اتنے لوگ دنیا بھر میں انٹرنیٹ سے لگے بیٹھے تھے کہ یہ ویب سائٹ اپنی انتہائی capacity تک پہنچ چکی تھی۔ حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ناظر اعلیٰ و امیرمقامی کی طرف سے جاری کیا جانے والا تسلّی آمیز پیغام مکرم منیر احمد جاوید صاحب نے پڑھ کر سنایا تو دکھ اور اضطراب کی کیفیت عملاً اس طرح سے کم ہوتی ہوئی محسوس ہونے لگی کہ اپنے قادروتوانا خدا کے حضور عاجزانہ دعاؤں کی طرف توجہ پیدا ہوئی اور پیغام کے آخری الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر جس یقین اور اعتماد کا اظہار تھا اُس سے دلوں کو ایسی ڈھارس بندھتی تھی جس سے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے وہ الفاظ یاد آئے جو آپؓ نے اپنی جان سے محبوب آقا ﷺ کی وفات پر مومنوں سے کہے تھے کہ تم میں سے جو محمد رسول اللہ کی عبادت کرتا تھا وہ یاد رکھے کہ حضورﷺ وفات پاچکے ہیں اور جو خدا تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا وہ یاد رکھے کہ ہمارا خدا زندہ تھا، زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔
دفتر میں بیٹھے ہوئے میری یادوں کا سلسلہ فقط اُسی وقت کچھ دیر کیلئے منقطع ہوتا جب دنیا کے مختلف ممالک میں بیٹھے ہوئے ایسے پیاروں کے ٹیلیفون آتے جن کا پیارا ترین وجود اُن سے جدا ہوگیا تھا۔ اپنے بے قابو دل کو سنبھال کر ٹیلیفون پر کسی کو تسلّی دینا قیامت سے کم نہیں ہوتا۔ اُس روز یہ قیامت کئی بار دل پر گزری۔ بہتے اشکوں کے ساتھ ہر زبان پر اُن شفقتوں کی کہانی تھی جس نے دل و دماغ پر محبت کے لازوال نقوش ثبت کر رکھے تھے۔ شام گئے جب خود کو اس قابل سمجھا کہ دل کسی قدر گرفت میں آچکا ہے تو عازم مسجد ہؤا۔ وہاں سینکڑوں افراد موجود تھے، سب کا درد ایک ہی پایا اور اس درد کا ایک ہی علاج تھا جو ہر زبان پر جاری تھا: انا للّہ و انا الیہ راجعون۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے ہی ایک بار فرمایا تھا کہ کسی کی وفات یا نقصان پر کہے جانے والے ان الفاظ میں دراصل کہنے والے کیلئے ایک سبق ہے اور وہ یہ کہ جانے والا تو چلا گیا لیکن ہم نے بھی بالآخر اُسی قادرو توانا ہستی کے حضور پیش ہونا ہے اور اس حقیقت کو ٹالا نہیں جاسکتا اس لئے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے اُس وقت کو یاد رکھے جو آج کسی دوسرے پر آیا ہے اور کل اُس پر بھی یقینا آئے گا۔
MTA پر اردو خبریں پڑھنے والوں کے لئے دن مقرر ہیں۔ وہ ہفتہ کا روز تھا اور اُس روز یہ فرض مجھے ادا کرنا تھا۔اُس روز کی صرف ایک ہی اہم خبر تھی جسے تیار کرتے ہوئے دل کی کیفیت کئی بار ڈانواں ڈول ہوئی۔ اس خبر کو MTA پر پڑھنے کا مرحلہ بھی انتہائی دشوار، کٹھن اور مشکل تھا، جو خون کے آنسو روکتے ہوئے طے پایا۔
رات گئے جب اسلام آباد پہنچا تو محترم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب (سیکرٹری انتخاب خلافت کمیٹی) نے فون کے ذریعہ ایک ڈیوٹی سپرد کی۔ یہ خلافت کمیٹی جو چند گھنٹے پہلے تک کہیں نظر نہیں آتی تھی، اب خدا تعالیٰ کے قائم کردہ اس نظام کو قائم رکھنے کی خاطر ہر قربانی کا عزم کرتے ہوئے متحرک ہوچکی تھی۔ اس روحانی نظام پر غور کرنے سے اس بات کا یقین کئے بِنا چارہ ہی نہیں رہتا کہ جماعت احمدیہ کا یقینا ایک قادر خدا ہے جو ہمہ وقت جماعت پر مہربان ہے ۔ اور یہ بھی کہ خدائے علیم و خبیر کے نُور سے روشنی پاتے ہوئے ہمارے پیارے خلفاء عظام نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس پیاری جماعت کی روحانی صحت کو برقرار رکھنے کیلئے ، علم و عمل کے جو انمٹ نقوش چھوڑے ہیں وہ ہمیشہ مشعل راہ رہیں گے۔
20؍اپریل کی صبح سے ہی مہمانوں کی تعداد تیزی سے بڑھنے لگی۔ اسی شام ربوہ سے پہلا وفد بھی لندن پہنچ گیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے حضور رحمہ اللہ کی ہجرت کے بعد آپؒ کے ارشادات کو حرز جان بناکر ہرقربانی کے لئے خود کو پیش کئے رکھا اور اپنی جان، مال، وقت اور عزت کی کچھ بھی پروا نہیں کی۔ اس وفد میں شامل ایسے خوش نصیب بھی تھے جنہیں اسیر راہ مولیٰ رہنے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ انہوں نے بدنوا دشمن کے کئی تیر اپنے ہاتھوں پر روکے لیکن اُف تک نہ کی بلکہ بے لوث محبت، ثبات قدم اور حکمت سے پاکستان کے احمدیوں کے عزم و حوصلہ کو بلند رکھنے میں سیدنا حضور اقدس رحمہ اللہ تعالیٰ کی معاونت کی ۔
ہزاروں مہمانوں کی رہائش، خوراک اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کا انتظام احسن طریق پر کرنے کیلئے سینکڑوں افراد ڈیوٹی پر موجود تھے۔ کھانا کھلانے اور چائے مہیا کرنے کا سلسلہ قریباً چوبیس گھنٹے جاری تھا۔ ہوائی اڈوں پر پہنچنے والے غمزدہ احمدیوں کو جتنی جلد ممکن ہوسکا، مسجد فضل لندن پہنچایا گیا تاکہ وہ اپنے محبوب آقا کا آخری دیدار کرسکیں۔ مسجد میں خصوصی شعبہ مہمانوں کو ہرممکن سہولیات بہم پہنچا رہا تھا اور معلومات مہیا کر رہا تھا۔ مسجد سے ملحقہ سڑکیں انتظامیہ نے بند کروادی تھیں نیز مسجد کے اردگرد ایک بڑے علاقہ میں کونسل نے ایک ہفتہ کیلئے پارکنگ بلامعاوضہ استعمال کرنے کی اجازت دیدی تھی۔ قریبی سکول کے زیراستعمال سرسبز گراؤنڈ کے علاوہ وائٹ لینڈ کالج کی پارکنگ اور مسجد کے قریب واقع ٹینس کورٹ کی چابیاں بھی اُن کی انتظامیہ نے بخوشی جماعت کے سپرد کردی تھیں۔ مسجد کے قرب و جوار میں رہنے والوں نے بھی یہ چند دن انتہائی وسعت قلبی کا مظاہرہ کیا۔ چنانچہ مغربی معاشرہ کے مروّجہ قوانین کے مطابق لندن کے رہائشی علاقہ میں نقل و حمل اور شور وغیرہ پر وقت کی جو پابندیاں عائد ہیں، ان کے بارہ میں یا سڑکیں بند کئے جانے سے پیدا ہونے والی تکلیف سے متعلق کسی ہمسایہ نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ یہ سب کچھ دراصل اُسی پیکرِ حسن کی سحر انگیز شخصیت کا ہی اثر تھا جس کے دامِ اُلفت میں اپنے اور پرائے سبھی گرفتار تھے۔
پولیس کی ایک بڑی نفری مختلف انتظامات کے لئے اگرچہ موجود تھی لیکن جماعت احمدیہ کے حسن انتظام سے بے حد متأثر اور عملاً جماعتی انتظامات کے مطابق ہی عمل پیرا تھی۔ چہرۂ مبارک کا دیدار کرنے والوں کی قطاریں گریسن ہال روڈ سے نکل کر ملحقہ سڑکوں تک جاپہنچی تھیں۔ سکول کا پارک، گیسٹ ہاؤس اور دفاتر مہمانوں سے پُر تھے۔ نماز کا وقت ہوتا تو فٹ پاتھ اور سڑکوں پر صف آراء ہوجاتے۔ تاحد نظر انسانوں کا جم غفیر ہی دکھائی دیتا۔ دنیا بھر سے آنے والے مختلف رنگوں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے یہ احمدی، غم و اندوہ کی ان انتہائی کیفیات میں بھی اطاعت کی بے مثال روح کے ساتھ نظم و ضبط کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کروڑوں مجبور احمدیوں کے درد کی شدت کو کم کرنے کی خاطر MTA نے حضورؒ کے رُخ مبارک کی زیارت عام کا اہتمام کرکے تشنہ روحوں کی کسی حد تک سیرابی کی کوشش بھی کی تھی۔
مسجد فضل لندن میں انتخاب خلافت کمیٹی کا اجلاس شروع ہوا تو ہزاروں احمدی مسجد کے باہر بیٹھ کر عاجزانہ دعاؤں میں مشغول ہوگئے اور لاکھوں ایسے تھے جو MTA کے توسط سے اسی کیفیت سے گزرنے لگے۔ چنانچہ جونہی حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب سلّمہٗ رَبُّہٗ کو خلیفۃ المسیح منتخب کرلینے کا اعلان ہوا تو کروڑوں چہروں پر چھائے ہوئے خوف کے بادل چھٹ گئے اور انہوں نے نہایت عقیدت اور محبت سے حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و غلامی کا جؤا اپنی گردنوں میں پہن لیا کیونکہ یہی وہ غلامی ہے جسے اگر خدا کی خاطر اختیار کیا جائے تو دنیا کی دوسری ساری غلامیوں کے لبادے تار تار ہو جاتے ہیں۔ اس اطاعت کا عظیم الشان مظاہرہ ساری دنیا نے MTA کے ذریعہ دیکھا کہ حضرت امیرالمومنین کی آواز ’’بیٹھ جائیں‘‘ جس تک جب بھی پہنچی وہ وہیں ساکت ہوگیا۔ یہی مظاہرہ خلافت رابعہ کے انتخاب کے موقع پر بھی دیکھنے میں آیا تھا جب ربوہ میں ماہ جون کی گرمیوں کی شدت اور بہتے ہوئے پسینے سے بے نیاز ہزاروں احمدی اپنے آقاؒ کی آواز سن کر بیٹھ گئے تھے۔ تب حضورؒ نے پہلی عام بیعت سے قبل خطاب میں چودہ سو سال قبل ہونے والے اُس واقعہ کی یاد بھی دلائی تھی جب آنحضورﷺ کی آواز میں بیٹھ جانے کا حکم سن کر وہ صحابی بھی فوراً بیٹھ گئے جو مسجد کے باہر گلی میں سے گزر رہے تھے اور پرندے کی طرح پھدک پھدک کر مسجد کی طرف جانے لگے۔ کسی نے کہا کہ حضورﷺ کا ارشاد صرف مسجد میں موجود لوگوں کیلئے تھا۔ اس پر صحابی ؓ نے جواب دیا کہ مَیں نے یہ نہیں سنا کہ یہ حکم کس کیلئے تھا لیکن اگر مَیں اس پر عمل نہ کروں اور مسجد تک پہنچنے سے پہلے میری جان نکل جائے تو مَیں اپنے ربّ کو کیا جواب دوں گا۔


خدا کی خاطر ایک بھاری ذمہ داری کا بوجھ اٹھاکر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جب کسی حد تک اپنے جذبات پر قابو پالیا تو عالمی بیعت شروع ہوئی۔ ہر ہر لفظ زبان کے راستہ دل تک اُتر گیا اور یہ پیغام دے گیا کہ بیعت ایک ایسی امانت ہے جو صرف زبان سے ادا کرنے کی چیز نہیں بلکہ روح کی گہرائیوں سے اس پر کاربند ہونے سے ہی اس عہد کا حق ادا ہوسکتا ہے۔
نظام خلافت سے وابستگی اور افراد جماعت کی خلیفۂ وقت سے محبت کی مثال دنیا کے کسی اَور نظام میں دکھائی نہیں دیتی۔ اِس محبت کا ایک راز یہ بھی ہے کہ خلیفہ وقت اپنی ذات کے لئے کبھی بھی کسی سے محبت کا طالب نہیں ہوتا بلکہ وہ محض خدا تعالیٰ کی محبت ہمارے دلوں میں پیدا کرنے کی خاطر اپنی ذات کی ہرقربانی کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے اور خدا تعالیٰ اُس کی مساعی کو قبولیت کا شرف عطا فرماتے ہوئے اپنی محبت کے ساتھ ساتھ اُس کی محبت بھی مومنین کے دلوں میں پیدا فرما دیتا ہے۔ یہ محبت جو خدا کے فضل سے پھر بڑھتی ہی چلی جاتی ہے، مومنین کی ایسی جماعت پیدا کرتی ہے جو خلیفۂ وقت کی جنبش ابرو پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے نہ صرف تیار رہتی ہے بلکہ اس قربانی کو سرمایہ حیات خیال کرتی ہے۔
23؍اپریل کی صبح سے ’’اسلام آباد‘‘ میں حضورؒ کے جسد مبارک کی تدفین کی تیاریاں مکمل کرلی گئی تھیں۔ اس چھوٹی سی بستی کا ہر بچہ اور بڑا حضورؒ کی اَن گنت شفقتوں، محبتوں اور احسانات کا زیربار ہے۔
حضورؒ کا جسد اطہر قافلہ کے ذریعہ اسلام آباد کے سبزہ زار تک پہنچا۔ یہاں کی روحانی محفلوں میں حضورؒ سینکڑوں مرتبہ رونق افروز ہوچکے تھے، آج آپؒ کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ہزاروں احمدی یہاں موجود تھے جن کے اندر کے گہرے دکھ کا اظہار اُن کی آنکھوں اور چہروں سے ہو رہا تھا۔ ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی بھی تھی جو اگرچہ حضورؒ کی روحانی غلامی میں تو شامل نہیں تھے لیکن انہیں حضوررحمہ اللہ تعالیٰ کی محبت آمیز یادیں یہاں تک لے آئی تھیں۔
اللہ تعالیٰ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی مطمئن روح پر بے شمار رحمتیں نازل فرمائے۔اور ہمیں آنے والے امام کا استقبال مکمل اطاعت ، وفا اور دعائوں کے ساتھ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں