جو بلند بامِ حروف سے ، جو پرے ہے دشتِ خیال سے – نظم

مجلس خدام الاحمدیہ کینیڈا کے مجلہ ’’الندا ء ‘‘ جولائی 2005ء تا جون 2006ء میں مکرم رشید قیصرانی صاحب کی ایک غزل شامل اشاعت ہے۔

رشید احمد قیصرانی صاحب

اس غزل میں سے انتخاب پیش ہے:

جو بلند بامِ حروف سے ، جو پرے ہے دشتِ خیال سے
وہ کبھی کبھی مجھے جھانکتا ہے غزل کے شہرِ جمال سے
ابھی رات باقی ہے قصہ خواں ، وہی قصہ پھر سے بیاں کرو
جو رقم ہوا تھا کرن کرن ، کسی چاند رُخ کے وصال سے
مَیں جہاں بھی تھا ترے حسن کے کسی زاویے کا اسیر تھا
مَیں تو ایک پل بھی نکل سکا نہ کبھی محیطِ جمال سے
جو ترے خیال کو جاوداں ، جو مرے سخن کو امر کرے
وہی ایک لمحہ تراش لوں ترے ہجر کے مہ و سال سے

اپنا تبصرہ بھیجیں