حضرت ابوذر غفاریؓ
آپؓ کا نام جندب بن جنادہ تھا اور آپؓ کی والدہ کا نام رملۃ بنت وقیعۃ تھا۔ عرب کے مشہور قبیلے بنوغفار سے تعلق رکھتے تھے۔ آپؓ کے بارہ میں مکرم ظہور احمد مقبول صاحب کا ایک مضمون ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ اگست 2001ء کی زینت ہے۔
حضرت ابوذرؓ کو جب آنحضورﷺ کے دعویٰ کی خبر ملی تو آپؓ نے اپنے بھائی کو صورتحال معلوم کرنے کے لئے مکہ بھیجا۔ اُس نے واپس آکر آنحضورﷺ کی بہت تعریف کی تو پھر آپؓ خود مکہ تشریف لے گئے اور خانہ کعبہ میں قیام فرمایا لیکن چونکہ آپ نہ کسی سے کچھ پوچھتے تھے اور نہ کسی سے جان پہچان تھی اس لئے اسی طرح تین دن گزرگئے۔ پھر حضرت علیؓ آپ کو ہمراہ لے کر آنحضورﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپؓ اُسی وقت ایمان لے آئے۔ ایمان لانے والوں میں آپ کا نمبر چوتھا یا پانچواں تھا۔ پھر آنحضورﷺ نے آپؓ سے فرمایا کہ اپنی قوم میں واپس جاکر تبلیغ کرو یہاں تک کہ میرا کوئی حکم تم تک پہنچے۔
حضرت ابوذرؓ بارگاہِ نبویؐ سے نکلے تو سیدھے خانہ کعبہ پہنچے اور کفار کے سامنے توحید کا اعلان کیا تو انہوں نے آپؓ کو بُری طرح زدوکوب کیا یہاں تک کہ حضرت عباسؓ نے کفار کو یہ کہہ کر روکا کہ اس کا تعلق قبیلہ غفار سے ہے جو شام کی طرف جانے والے تجارتی راستہ میں واقع ہے، اگر تم نے اسے مارا تو اس کا قبیلہ تمہارے قافلوں کو نقصان پہنچائے گا۔ چنانچہ کفار نے آپؓ کو چھوڑ دیا۔ لیکن دوسرے دن آپؓ دوبارہ خانہ کعبہ پہنچے اور پھر اسی طرح واقعہ ہوا۔
قبولِ اسلام کے بعد حضرت ابوذرؓ اپنے قبیلہ میں واپس چلے گئے اور پھر 3ھ میں ہجرت کرکے مدینہ پہنچے۔ اسی وجہ سے آپؓ کو جنگ بدر میں شرکت کا موقع نہیں مل سکا۔
جب آنحضورﷺ غزوہ تبوک کے لئے نکلے تو لوگ کہنے لگے کہ فلاں فلاں پیچھے رہ گیا۔ آنحضورﷺ نے اس پر فرمایا کہ اس ذکر کو چھوڑ دو، اگر کسی میں خیر ہوگی تو خدا تعالیٰ اُسے تم سے ملادے گا۔ پھر کسی نے کہا کہ یا رسول اللہ! ابوذر بھی پیچھے رہ گیا۔ آپؐ نے فرمایا: کون کہتا ہے؟۔
دوسری طرف حضرت ابوذرؓ نے اپنے اونٹ پر اسلامی لشکر کے پیچھے سفر شروع کیا تو اونٹ کے تھک جانے پر آپؓ اپنی پیٹھ پر سامان لاد کر قافلہ کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ لوگوں نے دیکھا کہ کوئی راستہ پر آرہا ہے تو آنحضورﷺ نے فرمایا: یہ ابوذرؓ ہوں گے۔ چنانچہ وہ آپؓ ہی تھے۔ آپؓ کو دیکھ کر آنحضورؐ نے فرمایا: اے ابوذر! اللہ تم پر رحم کرے۔
31ھ میں حضرت ابوذرؓ کی وفات ہوگئی۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔