حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ
امین الامّت حضرت ابو عبیدہ عامر بن عبداللہ بن الجراح ابتدائی دور میں اسلام قبول کرنے والے اور عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25؍فروری 1999ء میں آپؓ کی سیرۃ و سوانح کا تفصیلی بیان مکرم ظہور احمد صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
جن مسلمانوں نے دوسری مرتبہ حبشہ کی جانب ہجرت کی اُن میں حضرت ابو عبیدہؓ بھی شامل تھے۔ غزوہ بدر میں آپؓ کا سامنا اپنے مشرک والد سے ہوا مگر آپؓ اُن کے سامنے سے ہٹ گئے مگر جب کئی مرتبہ ایسا ہوا تو آپؓ نے اُنہیں قتل کردیا۔
غزوہ احد میں نازک حالات میں بھی آپؓ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ثابت قدم رہے۔ اسی غزوہ میں آنحضورﷺ کے چہرہ مبارک سے خَود کی کڑیاں نکالتے ہوئے آپؓ کے دو دانت بھی شہید ہوگئے۔
فتح مکہ کے موقع پر آنحضورﷺ کے جلو میں جو مہاجرین چل رہے تھے اُن میں آپؓ سب سے آگے تھے۔
جب اہلِ یمن نے کتاب و سنّت کی تعلیم کیلئے کسی کو بھیجنے کی درخواست کی تو آنحضورﷺ نے آپؓ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ ’’یہ اس امّت کے امین ہیں‘‘۔ چنانچہ آپؓ کو پھر امین الامّت کہا جانے لگا۔
خلافتِ راشدہ کے زمانہ میں بھی آپؓ ایک کامیاب جرنیل ثابت ہوئے اور رومیوں کے خلاف فتوحات میں نمایاں کردار ادا کیا۔
حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا کہ حضورﷺ کو اپنے کن ساتھیوں کے ساتھ سب سے زیادہ محبت تھی؟۔ جواب دیا ’’ابوبکرؓ ، پھر عمرؓ اور اس کے بعد ابوعبیدہؓ بن الجراح‘‘۔
آنحضرت ﷺکی وفات ہوئی تو حضرت عمرؓ نے حضرت ابو عبیدہؓ سے فرمایا ’’آپ امین الامت ہیں، ہاتھ بڑھائیے کہ میں آپ کی بیعت کروں‘‘۔ آپؓ نے جواب دیا ’’الصدیق اور ثانی اثنین ہمارے درمیان ہیں‘‘۔ اس موقع پر انصار نے کہا کہ ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک آپ (یعنی مہاجرین) میں سے۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ ’’ہم میں سے امیر ہوگا اور تم وزیر ہوگے… یہ دو افراد عمرؓ اور ابو عبیدہؓ موجود ہیں، ان میں سے کسی کی بیعت کرلو‘‘۔ اس پر دونوں بول اٹھے کہ ابوبکرؓ کی موجودگی میں کسی اور کو فضیلت حاصل نہیں۔ چنانچہ سب نے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کرلی۔
حضرت ابوبکرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں حضرت ابوعبیدہؓ کو بیت المال کی نگرانی سونپی۔ آپؓ ہی نے حضرت ابوبکرؓ کے لئے وظیفہ مقرر کیا اور انہیں معاش سے بے نیاز کرکے امور حکومت کے لئے فارغ کردیا۔
حضرت ابو عبیدہؓ تقویٰ اور اخـلاص کی عظیم منزل پر تھے۔آپؓ کو دنیا کی حرص نہ تھی۔ حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ آپؓ کو چارہزار درہم اور چار سو دینار بھیجے۔ آپؓ نے فوراً تقسیم کردیئے۔ جب حضرت عمرؓ شام آئے تو پوچھا ’’میرا بھائی کہاں ہے؟‘‘۔ پوچھا گیا ’’کون؟‘‘۔ فرمایا ’’ابو عبیدہؓ‘‘۔ تھوڑی دیر بعد ابو عبیدہؓ اونٹ کی رسی تھامے آئے تو حضرت عمرؓ آپؓ کے ہمراہ آپؓ کی جائے قیام پر تشریف لے گئے۔ آپؓ کے پاس تلوار اور ڈھال کے سوا کچھ نہ تھا۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ ’’اگر آپ کچھ سامان رکھتے تو بہتر تھا‘‘۔ ابو عبیدہؓ نے یہ کہہ کر عمرؓ کو رلادیا کہ ’’یہ جلد ہی ہمیں نیند (یعنی موت) کے بعد مل جائے گا‘‘۔
شام میں طاعون پھیلنے کے بعد جب حضرت عمرؓ مدینہ لَوٹنے لگے تو آپؓ نے ان سے کہا کہ آپ اللہ کی تقدیر سے بھاگتے ہیں؟!۔ اس پر حضرت عمرؓ نے جواب دیا ’’ہاں! میں اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی جانب بھاگ رہا ہوں‘‘۔ جب حضرت ابو عبیدہؓ طاعون میں مبتلا ہوئے تو آپؓ نے فرمایا کہ ’’میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ جو طاعون سے مر جائے وہ شہید ہے اور جو پیٹ کے مرض سے مرے وہ شہید ہے، جو ڈوب کر مرے وہ شہید ہے، جو جل کر مرے وہ شہید ہے اور جو دب کر مرے وہ شہید ہے، جو عورت زچگی کی حالت میں مرے وہ شہید ہے اور جو نمونیہ سے مرے وہ شہید ہے‘‘۔ آپؓ نے طاعون ہی کے ذریعہ سے شہادت کا شرف حاصل کیا اور 18ہجری میں 58 برس کی عمر میں وفات پائی۔
حضرت ابو عبیدہؓ سے چودہ احادیث مروی ہیں۔ آپؓ اُن صحابہؓ میں سے تھے جو فتویٰ دیتے تھے۔ آپؓ کو قرآن مجید جمع کرنے کا شرف بھی حاصل ہے۔ حضرت عمرؓ نے اپنے آخری وقت میں تمنا کی ’’کاش ابو عبیدہؓ زندہ ہوتے تو میں کسی سے مشورہ کئے بغیر انہیں اپنا جانشین بنا دیتا‘‘۔
آپؓ شاندار قائدانہ صلاحیتوں کے مالک، ذہین و فطین اور سنجیدہ طبیعت کے مالک تھے۔ جنگی پالیسی نہایت ہوشیاری اور دوراندیشی سے بناتے تھے۔ اپنے سپاہیوں کا خیال رکھتے اور خطرات کے وقت خود پیش پیش رہتے۔ ہر مرحلے پر ساتھیوں سے مشورہ کرتے اور اُن پر بھرپور اعتماد کرتے۔