حضرت اقدس کی عربی تحریرات پر اعتراضات کی حقیقت
جامعہ احمدیہ ربوہ کے خلافت سووینئر میں شعبہ عربی کا تیار کردہ مضمون بھی شامل ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی تحریرات پر ہونے والے اعتراضات کی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ چونکہ حضورعلیہ السلام کو عربی زبان کے چالیس ہزار مادے ایک ہی رات میں الہاماً سکھائے گئے تھے اس لئے حضورؑ کا یہ دعویٰ دیگر علماء کو ہضم نہیں ہوا۔ اُن کا خیال یہی رہا کہ کسی عرب کی مدد سے ہی یا کسی عرب عالم کی کتب سے سرقہ کرکے ہی حضورؑ نے عربی تالیفات کی ہیںاور اچھوتے قصائد لکھے ہیں۔ اسی طرح حضورؑ کی صرف و نحو کے قواعد سے عدم واقفیت کا بھی شور مچایا گیا۔
حضورؑ نے خود بھی ایسے اعتراضات اور شبہات کا کئی جگہ جواب دیا ہے اور معترضین کو کہا ہے کہ وہ ظلمت اور تعصب کی راہ سے سہو کتابت کو بھی میری غلطی شمار نہ کریں کیونکہ وہی ترکیب جب پچاس دوسری جگہ درست استعمال ہوئی ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ محض ایک جگہ غلطی سے لکھا جانا سہو کتابت ہی ہے۔
حضورؑ کے علم کلام پر جو اعتراضات کئے گئے ہیں اُن کا جواب حضورؑ کے بعض غلاموں نے بھی دیا ہے اور معترضین کے جہل مرکّب کو ثابت کیا ہے۔ زیرنظر مقالہ میں ایسی بے شمار مثالیں بیان کرکے ثابت کیا گیا ہے کہ صرف وہی شخص حضورؑ کے علم کلام پر عربی قواعد کے حوالہ سے تنقید کرسکتا ہے جس نے چند ایک سطحی قسم کے عربی قواعد کا مطالعہ کیا ہو۔