حضرت الشیخ محی الدین ؒ ابن العربی
حضرت الشیخ محی الدین ؒ ابن العربی تصوف کی دنیا میں ’’شیخ اکبر‘‘ کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ آپؒ حاتم طائی کی نسل سے تھے۔ سپین میں اسلامی حکومت کے قیام کے بعد آپ کا گھرانہ مرسیلہؔ میں جا بسا تھا جہاں آپ 17؍رمضان 560ھ کو پیدا ہوئے۔ آپؒ کے والد نجار تھے مگر تعلیم یافتہ اور بہت نیک تھے۔ قرآن و حدیث کی ابتدائی تعلیم آپؒ نے والد سے ہی حاصل کی۔ پھر 568ھ میں اشبیلیہ جا کر ابو بکر بن خلف سے فقہ ، حدیث اور تفسیر کا درس لیا۔ 18؍ سال کی عمر میں ابن رشد سے ملنے کے لئے قرطبہ گئے۔ بچپن سے ہی نیکی ، عبادت ، سچائی ، ذہانت اور سچے خوابوں کی بنا پر آپؒ مشہور ہوگئے۔ عالم شباب میں نظم و نثر پر یکساں قدرت حاصل تھی۔ عموماً فی البدیہہ شعر کہا کرتے۔ آپؒ کی سیرت و سوانح پر ایک مضمون محترم صوفی محمد اسحاق صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9؍ستمبر 1996ء میں شائع ہو ا ہے۔
گو حضرت ابن عربیؒ کا کنبہ حضرت امام مالکؒ کا پیرو تھا لیکن آپؒ نے چونکہ مختلف مکاتب فکر کے علماء سے تعلیم حاصل کی تھی اس لئے آپؒ نے خود کو کسی ایک کا پابند نہ رکھا۔ آپؒ کو فلسفہ ، تصوف اور الٰہیات کے اسرار و رموز کے مطالعہ میں جو گہرائی حاصل ہوئی وہ بہت کم لوگوں کے حصہ میں آئی ہے۔ آپ کی کشفی کیفیات مسلم ہیں۔ آپؒ افریقہ، مصر، مکہ اور بغداد میں بھی مقیم رہے لیکن دمشق میں مستقل سکونت اختیار کی۔ آپؒ کے فلسفیانہ عقائد کی وجہ سے ایک طبقہ آپؒ کا دشمن ہو گیا چنانچہ آپؒ کو زہر دینے اور قتل کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔ آپؒ کی تصانیف تین سو سے زائد ہیں لیکن اس میں بیان شدہ اکثر فلسفہ دنیا کے مشکل ترین فلسفوں میں شمار ہوتا ہے۔ تاہم آپؒ نے اپنے عقائد کو قرآن و حدیث کی مدد سے بیان کیا ہے جو قابل فخر ہے۔ آپؒ کے چند اقوال ذیل میں ہدیۂ قارئین ہیں:
٭ عبادت کی جان عجز ہے ۔
٭ کوئی شخص اس وقت تک علم کی بلندیوں کو نہیں چُھو سکتا جب تک کہ کلام اللہ اور رسول اللہ کی تعلیم پر پوری طرح عمل نہ کرے اور تمام قدیم پیغمبروں کی الہامی تعلیم کا احترام نہ کرے۔
٭ جو شخص اللہ تعالیٰ کے قوانین کی نافرمانی کرتا ہے اسے کبھی حقیقی عزت حاصل نہیں ہوتی، چاہے اس کی شہرت آسمانوں کو چُھوتی ہو۔
٭ کسی آدمی کی سب سے بڑی خوبی اپنے دشمنوں سے نرم دلی کا برتاؤ ہے۔
حضرت محی الدینؒ ابن العربی نے 78 سال کی عمر میں 638ھ میں وفات پائی اور جبل قاسیون پر دفن ہوئے۔