حضرت امام ابن ماجہؒ
تدوین حدیث کا کام مستقل اور وسیع پیمانہ پر دوسری صدی ہجری کے آغاز میں ہوا اور تیسری صدی کے آغاز میں حضرت امام بخاریؒ نے اپنی جامع صحیح کے ذریعہ تدوین حدیث میں ایک نئے باب کا اضافہ فرمایا۔ پھر آپؒ ہی کے شاگرد حضرت امام مسلمؒ نے بخاری کے طرز تالیف پر اپنی کتاب جامع مسلم مرتب فرمائی۔ اسی طرح امام ترمذیؒ، امام ابو داؤدؒ، امام نسائی ؒ اور امام ابن ماجہؒ نے فن حدیث پر کتب مرتب فرمائیں۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9؍جولائی 1999ء میں حضرت امام ابن ماجہؒ اور آپؒ کی سنن کے بارہ میں ایک تفصیلی مضمون مکرم محمد شفیق قیصر صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت امام ابن ماجہؒ کا نام محمد، کنیت ابو عبداللہ اور عرف ابن ماجہ ہے۔ بعض علماء ’’ماجہ‘‘ کو آپؒ کے دادا کا نام قرار دیتے ہیں اور بعض آپؒ کی والدہ کا۔ آپؒ 209ھ میں پیدا ہوئے اور بیس اکیس برس کی عمر تک اپنے وطن میں ہی تحصیل علم کی خاطر سفر کرتے رہے اور اپنے زمانہ کے نامور اساتذہ سے علم حدیث حاصل کیا۔ 230ھ کے قریب بلاد اسلامیہ کا رُخ کیا اور خراسان، عراق، حجاز کے شہروں بالخصوص بصرہ، کوفہ، بغداد، مکہ اور دمشق کا سفر کیا۔ 22؍رمضان 273ھ میں 64؍سال کی عمر میں وفات پائی۔
حضرت امام ابن ماجہؒ کی کتاب بعض علماء کے نزدیک دو حیثیتوں سے تمام صحاح ستہ میں ممتاز ہے۔ اوّل یہ کہ حسن ترتیب یعنی جس عمدگی سے احادیث کو باب وار بغیر کسی تکرار کے آپؓ نے بیان کیا ہے یہ خوبی دوسری کتب میں موجود نہیں ہے۔ اور دوسری یہ کہ اس میں بعض ایسی احادیث شامل ہیں جو دیگر کتب میں موجود نہیں ہیں۔
حضرت شاہ عبدالعزیزؒ محدّث دہلوی ’’سنن ابن ماجہ‘‘ کے بارہ میں فرماتے ہیں: ’’فی الحقیقت احادیث کو بلاتکرار بیان کرنے اور حسن ترتیب اور اختصار کے لحاظ سے کوئی کتاب اس کی ہمسر نہیں‘‘۔
علامہ ابن حجرؒ فرماتے ہیں: ’’سنن بڑی جامع، جید اور بے شمار ابواب اور غرائب پر مشتمل ہے‘‘۔
علامہ ابن کثیرؒ نے فرمایا: ’’کتاب بہت مفید اور فقہی نقطہ نظر سے قابل قدر ہے‘‘۔ نیز لکھا کہ سنن ابن ماجہ چار ہزار احادیث پر مشتمل ہے اور ایک قلیل تعداد کے علاوہ باقی سب جید اور صحیح ہیں۔
علامہ ذہبیؒ فرماتے ہیں: ’’سنن ابن ماجہ عمدہ کتاب ہے۔ گو اس میں ضعیف روایات بھی ہیں مگر ان کی تعداد چنداں زیادہ نہیں‘‘۔
آنحضرتﷺ کی روایات بیان کرتے وقت صحابہؓ بڑی احتیاط سے کام لیتے تھے کیونکہ غلط روایت کے بیان کرنے پر دوزخ کی وعید سُن چکے تھے۔ بعض صحابہؓ کا طریق تھا کہ وہ ایسی روایات بیان فرماتے تھے جو اَوروں کو معلوم نہ ہوتی تھیں۔ چنانچہ حضرت معاذ بن جبلؓ کا یہی طریق تھا۔ حضرت امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں اسی مسلک کو اختیار فرمایا ہے اور بہت سے ابواب میں ایسی احادیث بیان کی ہیں جو دوسری پانچ کتب میں نہیں پائی جاتیں۔
سنن ابن ماجہ میں بیس کتابیں، پندرہ سو ابواب اور چار ہزار احادیث ہیں۔ علماء نے اس کتاب کی بھی کئی شروح اور حواشی لکھے ہیں۔ سب سے پہلی شرح علامہ علاؤالدین مغلطائی نے پانچ جلدوں میں لکھی جو صرف ایک حصہ کی شرح ہے۔ پھر مؤلف ابن ملقن نے آٹھ جلدوں کی شرح لکھی اور علامہ جلال الدین سیوطیؒ اور شیخ عبدالغنی بن ابوسعید دہلوی نے بھی شرح لکھی۔ اسی طرح مولوی وحیدالزمان صاحب حیدرآبادی نے اردو زبان میں مکمل شرح لکھی۔
ابن ماجہ کا تعارف بحوالہ نہیں ہے
اس ویب سائٹ میں جو مضامین الفضل ڈائجسٹ کے تحت دیئے گئے ہیں وہ اصل مضامین کا خلاصہ ہیں۔ حوالہ جات کے لئے براہ کرم اصل مضمون ملاحظہ فرمائیں۔