حضرت امام ابن تیمیہؒ
امام تقی الدین ابو العباس احمد بن شہاب الدین عبدالحلیم 661ھ میں حران میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کے والد بھی اپنے زمانہ کے مانے ہوئے عالم اور محدّث تھے۔ آپؒ اپنے ایک دور کے جدہ کی نسبت سے ابن تیمیہ کی کنیت سے معروف ہوئے۔ آپؒ بہت دلنواز، سنجیدہ اور بارعب شخصیت کے مالک تھے اور آپؒ کا گھرانہ اپنے علاقہ میں اثر ورسوخ اور دینی قیادت کا شرف رکھتا تھا۔ جب آپ کی عمر سات سال تھی تو آپکا خاندان تاتاریوں کے حملوں کے خوف سے حران سے ہجرت کرکے دمشق آگیا جہاں بغداد کی تباہی کے بعد کئی علماء پناہ گزین تھے۔ یہیں آپؒ کی پرورش ہوئی۔ آپ کے والد دمشق کی جامع مسجد کے واعظ اور اس کے ایک مدرسہ کے معلم تھے۔
امام ابن تیمیہؒ بچپن سے ہی بڑے محنتی، سنجیدہ اور علم کا ذوق رکھنے والے تھے۔ آپؒ کا حافظہ غضب کا تھا۔ آپؒ نے پہلے قرآن کریم حفظ کیا اور پھر مروّجہ علوم حاصل کئے۔ حدیث آپ کا پسندیدہ موضوع تھا اور علوم عربیہ میں بھی مہارت تامہ حاصل تھی۔ آپؒ کی عمر 21 سال تھی جب آپؒ کے والد کا انتقال ہوگیا اور آپؒ اپنے والد کی مسند تدریس پر متمکن ہوئے۔ آپؒ بڑے فصیح اللسان اور واضح البیان استاد تھے۔ ہر خیال کے لوگ آپ کے درس میں شامل ہوتے اور اپنے اپنے ظرف کے مطابق استفادہ کرتے۔ آپؒ کا ذکر خیر محترم ملک سیف الرحمٰن صاحب مرحوم کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍جون 1998ء میں شامل اشاعت ہے۔
امام ابن تیمیہ نے بدعات کے خلاف بڑی شدّت سے آواز بلند کی چنانچہ اُس زمانہ کے کئی بااثر صوفی آپ کے خلاف ہوگئے اور حاکمِ مصر الناصر کے پاس شکایت کی۔ الناصر کو اگرچہ ابن تیمیہؒ سے عقیدت تھی لیکن علماء کے شور و شر سے مجبور ہوکراُس نے آپ کو مصر بلا بھیجا جہاں قاضی نے الزام لگاکر قید کردیا اور 18 ماہ بعد الناصر کی کوششوں سے رہائی ملی۔ جب آپؒ نے الناصر کے ایک پیر کے فلسفہ وحدۃ الوجود پر تنقید کی تو قاضی نے الناصر پر پھر دباؤ ڈالا اور نتیجۃً آپؒ کے سامنے تین تجاویز پیش کی گئیں۔ اول یہ کہ زباں بندی کی شرط کے ساتھ اسکندریہ یا دمشق چلے جائیں اور دوم یہ کہ قید قبول کرلیں خواہ درس جاری رکھیں۔ آپؒ نے آخری صورت منظور کی لیکن پھر آپؒ کو زیادہ عرصہ قید میں نہ رکھا جاسکا کیونکہ آپ کی درس و تدریس کے نتیجہ میں لوگ پہلے سے بھی زیادہ آپؒ کے گرویدہ ہوگئے۔ … ایک موقعہ پر الناصر نے ارادہ کیا کہ جن علماء نے آپؒ کو تکالیف دی ہیں اُن کو سزا دی جائے لیکن آپؒ نے سب کو معاف کردیا۔ تاہم صوفیاء کے گروہ نے پبلک کو اکسایا جس پر بعض جاہلوں نے آپؒ پر حملہ بھی کیا۔ لیکن آپؒ نے اپنے مشتعل حامیوں کو انتقام لینے سے سختی سے روکا اور کہا کہ اگر میری خاطر انتقام لینا چاہتے ہو تو میں معاف کرچکا ہوں، اگر اپنے لئے انتقام لینا چاہتے ہو تو جو مرضی ہے کرو اور اگر اللہ کی خاطر انتقام لینا چاہتے ہو تو یاد رکھو کہ اللہ اپنا حق لینے پر آپ قادر ہے۔
امام ابن تیمیہؒ عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ مرد میدان بھی تھے۔ آپؒ نے تاتاریوں کے خلاف جہاد میں مؤثر حصہ لیا اور انہیں شکست فاش دی۔ ایک اور باغی قبیلے الحشاشین کے خلاف بھی تلوار اٹھائی اور انہیں کچل دیا۔ یہ قبیلہ خود کو مسلمان کہتا تھا لیکن عیسائیوں سے ان کا خفیہ گٹھ جوڑ تھا اور موقع ملنے پر حملہ کرکے مسلمانوں کا اسلحہ، گھوڑے، عورتیں اور بچے پکڑ کر عیسائیوں کے پاس بیچ دیتے تھے۔ بعض اعلیٰ سطح کے سفارتی وفود کی کامیاب قیادت بھی آپؓ نے کی۔
امام ابن تیمیہؒ عقائد کے اعتبار سے کسی تاویل اور مجاز کے قائل نہ تھے اور ظاہری مفہوم کو ترجیح دیتے تھے۔ صوفیاء کے اکثر نظریات کو خلافِ شریعت سمجھتے تھے۔قبر پرستی کے اتنے خلاف تھے کہ قبور کی زیارت کو بھی ناجائز سمجھتے۔ حتّٰی کہ آنحضور ﷺ کی روضہ مبارک کی زیارت کو بھی جائز نہ سمجھتے۔ اسی طرح طلاق کے بارے میں بھی آپ کا نظریہ تھا کہ حیض کی حالت میں طلاق لغو ہے اور اکٹھی تین طلاقیں دراصل ایک ہی ہیں۔ اسی قسم کے نظریات کی وجہ سے آپؒ کے خلاف فتوے دیئے گئے اور عوام کی شورش کے ڈر سے آپؒ کو قلعہ میں نظربند کردیا گیا۔ لیکن آپ کے نظریات عوام تک تحریرات کے ذریعے پہنچتے رہے۔ اس پر آپؒ سے قلم اور کاغذ بھی لے لیا گیا۔ یہ پابندی آپ کے لئے ناقابلِ برداشت تھی لیکن سب کچھ خدا کی خاطر تھا۔ آپؒ کی آخری تحریر جو آپؒ کی وفات کے بعد ملی وہ کوئلہ سے لکھی گئی تھی۔ آخر 728ھ میں آپؒ 67 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ آپؒ کا جنازہ قلعہ سے باہر لایا گیا اور خلق کثیر نے نماز جنازہ پڑھی۔
امام ابن تیمیہؒ نے بلاشبہ ہزاروں صفحات تحریر کئے۔ آپکی چھوٹی بڑی کتب کی تعداد پانچ سو کے قریب ہے اور بعض کتب کئی کئی جلدوں پر مشتمل ہیں۔