حضرت امام راغب اصفہانی ؒ
ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ مارچ 2005ء میں حضرت امام راغب اصفہانیؒ کے بارہ میں مکرم خواجہ ایاز احمد صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت امام راغبؒ کا نام حسین بن محمد بن مفصّل اور کنیت ابو قاسم ہے۔ آپ نے اپنی زندگی کے آخری سالوں اور وفات کے بعد عظیم الشان شہرت پائی جو آپ کی ہمہ گیر اور کثیر المنافع کتب کی وجہ سے حاصل ہوئی۔ یہ کتب آپ کی تبحر علمی، وسعتِ نظر، تعصّب سے مبرّا، عالی حوصلگی اور تمام اسلامی و علمی موضوعات سے گہری واقفیت پر دلالت کرتی ہیں۔ تاہم آپ کی ولادت، مقام ولادت اور ابتدائی تعلیم و تربیت کے متعلق کوئی معین بات کتبِ تاریخ و سوانح میں نہیں ملتی۔ اس کا سبب یہ بھی ہے کہ چونکہ آپ نے حاکموں کے دربار سے تعلق نہ رکھا اس لئے آپ کے ابتدائی حالات مشہور اور محفوظ نہ ہوئے۔
آپ کی نسبت اصفہان شہر کی طرف ہے جو علماء کا مرکز تھا اور بہت سے ائمہ حدیث و تاریخ اور ہر فن کے بڑے قابل قدر علماء اس علاقہ میں پیدا ہوئے یا یہاں سکونت اختیار کی۔ اس لئے قیاس ہے کہ آپ نے اسی شہر اصفہان میں تعلیم و تربیت پائی ہوگی۔ اگرچہ مختلف علوم وموضوعات پر کثیر تعداد میں آپؒ کی تصانیف کا ذکر ملتا ہے لیکن بدقسمتی سے صرف چار کتب آج دستیاب ہیں۔ یعنی (1) المفردات فی غریب القرآن۔ (2)الذریعۃ مکارم الشریعۃ (تصوف)۔ (3)تفصیل النشأتَین وتحصیل السعادتَین (اخلاقیات) ۔ (4) محاضرات الأدباء ومحاولات الشعراء والبلغاء (ادب عربی)
حضرت امام راغبؒ نے ایک تفسیر بھی لکھی۔ بعض نے اس کا نام ’’جامع التفاسیر‘‘ لکھا ہے۔ جس کے متعلق ذکر ملتا ہے کہ آپ اسے مکمل نہ کر سکے۔ تاہم علامہ عبد اللہ بن عمر البیضاوی (متوفی 685ھ) نے اس کا اکثر حصّہ اپنی تفسیر ’’انوار التنزیل وأسرار التاویل‘‘ میں شامل کر لیا۔ اس تفسیر کا مقدمہ تین فصول پر مشتمل اور درمیانی تقطیع کے تینتیس صفحات کا ہے۔ اور اگرچہ مختصر ہے مگر آپ کی دیگر کتب کی مانند نہایت اعلیٰ علمی منافع پر مشتمل ہے۔
آپؒ اہل سنت کے عظیم علماء میں سے اور شافعی المسلک تھے لیکن تنگ نظر اور متعصب ہرگز نہ تھے۔ کسی مسئلہ پر مختلف علماء کے اقوال بیان کر کے ان پر بحث کرتے اور پھر ان میں صحیح قول کو قبول کرتے۔ آپؒ کی ایک عظیم صفت یہ ہے کہ ’’منقول‘‘ کو ہمیشہ ’’معقول‘‘ کے ساتھ ساتھ رکھتے ہیں۔ اس وجہ سے بعض علماء آپ کو ’’معتزلی‘‘ سمجھ بیٹھے۔ ایک عاشقِ رسولؐ ہونے کے ناطے آپ اہل بیت سے بڑی محبت رکھتے اور اپنی کتب میں اس کا اظہار بھی کرتے جس کی وجہ سے بعض لوگ آپ کو شیعہ بھی قرار دیتے رہے ہیں۔
آپ ایک عظیم مفسر ہونے کے ساتھ ساتھ حدیث، کلام، اخلاق، حکمت (فلسفہ)، شعر، لغتِ عرب، کتابت اور سابقہ علماء کے علوم سے گہری واقفیت رکھنے والے تھے۔ آپ کی کتب نے عوام و خواص میں بڑی قدر پائی۔ حتی کہ امام غزالیؒ جیسا عظیم شخص آپ کے تصوف کے مضمون پر مبنی کتاب ہمیشہ اپنے پاس رکھا کرتے تھے۔ اسی طرح بہت سے عظیم مسلم دانشوروں نے آپ کے کلام کی تعریف کی ہے۔ علامہ کردعلی لکھتے ہیں: ’’آپؒ اس پہلو سے امتیازی شان رکھتے ہیں کہ عقل آپؒ کی تحریروں سے خوب چمکتے ہوئے جھلکتی ہے۔ اور آپؒ تمام علماء پر اس لحاظ سے فوقیت رکھتے ہیں کہ آیات قرآنیہ سے نہایت عمدہ استنباط کرتے ہیںا ور پھر اس ماحصل کو عین موقعہ پر ایسی عمدگی سے دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ آپ کے بیان کو ثابت کردیتی ہے۔ آپ حکمت یعنی علمِ عقل کو شرعی احکام کے ساتھ مطابقت دینے اور اپنی کتب کو فصاحت و بلاغت کے ساتھ ساتھ نہایت سہل اور نفع مند طور پر ترتیب دینے میں اپنا نظیر نہیں رکھتے‘‘۔
حضرت علامہ راغبؒ اپنی کتاب ’’المفردات فی غریب القرآن‘‘ کے مقدمہ میں کتاب کا تعارف کراتے ہوئے خود لکھتے ہیں: ’’علوم القرآن کو حاصل کرنے کے لئے جس چیز کی سب سے پہلے ضرورت پڑتی ہے وہ قرآن کے الفاظ و مفردات کا علم ہے۔ اور قرآنی مفردات کے معانی کی تحصیل ویسی ہی پہلی اور بنیادی ضروری چیز ہے جیسے ایک عمارت بنوانے والے کے لئے سب سے پہلے اینٹوں کا حصول لازمی ہے۔ قرآن مجید نے لغتِ عربی کے ذخیرہ میں سے جو الفاظ استعمال کئے ہیں وہ لغتِ عرب کا بہترین نچوڑ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا سب سے اعلیٰ جزو اور مغز ہیں۔ اور بقیہ وہ عربی الفاظ جو قرآن میں استعمال نہیں ہوئے وہ مستعمل الفاظ کے لئے خادم اور تفصیل کا حکم رکھتے ہیں یا جیسے ایک نہایت خوشنما اور خوش ذائقہ پھل کے اوپر چھلکا ہو یا اس کے اندر بیج ہوں۔‘‘
مزید لکھتے ہیں: ’’اس کتاب (مفردات) کی تکمیل کے بعد اگر اللہ نے چاہا اور میری عمر نے مہلت دی تو ایک ایسی کتاب تصنیف کروں گا جو مترادفاتِ قرآن (قرآن مجید کے ہم معنی الفاظ) کی تحقیق پر مبنی ہوگی۔ اس میں مَیں ان بظاہر ہم معنی الفاظ میں فرق بیان کروں گا‘‘۔
آپ کی مطبوعہ کتب کی ایک مشترک عظمت یہ ہے کہ ان تمام کا آغاز الحمد للہ کے الفاظ سے ہوتا ہے۔
آپ کی کتاب ’’مفردات‘‘ نے حضرت مسیح موعودؑ کے خلفاء سے بھی خوب دادِ تحسین پائی ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں: ’’مفردات راغب عربی کی مستند لغتِ قرآن (ہے)۔‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے اپنی تفسیر ’’تفسیر کبیر‘‘ میں جابجا مفردات راغب سے حل لغت کے حوالے دے کر اللہ تعالیٰ کے ارشادات کی توضیح فرمائی ہے اور آپ کی لطافت ِ بیان اور فہم قرآن کی بڑی تعریف فرمائی ہے۔
اس طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے بالخصوص رمضان المبارک میں اپنے دروسِ قرآن میں قرآنی الفاظ کی لغت کے لئے مفردات پر بہت اعتماد فرمایا اور متعدد مرتبہ آپ کا ذکر بڑی محبت اور مدح کے ساتھ فرمایا۔ مثلاً ایک موقعہ پر فرمایا: ’’حضرت امام راغبؒ کی کتاب ’مفردات راغب‘ ہے۔ جو سند ہیں اس پہلو سے کہ ان سے بہتر لفظوں کی کُنہ تک پہنچنے والا کوئی اور مفّسر میں نے نہیں دیکھا۔‘‘
ایک موقعہ پر فرمایا: ’’حضرت امام راغبؒ بہرحال قرآن فہمی کے لحاظ سے اور عربی الفاظ کے فہم کے لحاظ سے سب پر بالا ہیں۔ ماشاء اللہ۔‘‘
ایک موقع پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا: ’’حضرت امام راغبؒ کا دماغ اتنا روشن اور پاکیزہ ہے کہ شاذ کے طور پر انہوں نے کبھی کوئی غلطی کی ہوگی۔ ورنہ قرآن کریم کے الفاظ کے بیان میں انتہائی احتیاط سے کام لیتے ہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ قرآنی الفاظ کے قرآنی آیات کے ذریعہ معانی کرتے ہیں۔ کسی لغت کی اور ضرورت نہیں۔ پس قرآنی لغت کیا ہے؟یہ سیکھنا ہوتو حضرت امام راغبؒ سے سیکھیں۔ ہر لفظ کے قرآنی آیات کے سہارے سے معنی کرتے ہیں، اس میں غلطی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘
قرآن مجید کا یہ عظیم خادم (حضرت امام راغبؒ) عظیم الشان خدمات سرانجام دینے کے بعد 502ھ بمطابق 1108ء میں اس دارفانی سے کوچ کرگیا۔ آپ کے مقامِ ولادت کی طرح آپ کی مقامِ وفات کا ذکر بھی نہیں ملتا۔