حضرت امام شافعیؒ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4؍اکتوبر 1999ء میں حضرت امام شافعیؒ کے بارہ میں ایک مضمون مکرم وارث احمد فراز صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ قبل ازیں حضرت امام شافعیؒ کا ذکر الفضل انٹرنیشنل 9؍جون 1995ء کے اسی کالم میں ہوچکا ہے۔
حضرت امام شافعیؒ کا نام محمد بن ادریس تھا اور ابو عبداللہ کنیت تھی۔ آپؒ 150ھ میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کی والدہ نے حالتِ حمل میں خواب دیکھا کہ مشتری سیارہ ان کے پیٹ سے نکلا پھر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا اور ہر شہر میں اس کے ٹکڑے گرے۔ تعبیر کرنے والے نے انہیں بتایا کہ آپ کے بطن سے ایک عظیم عالم پیدا ہوگا ۔ چنانچہ آپؒ کی پیدائش ہوئی۔ دو سال کی عمر میں والدین کے ہمراہ مکہ چلے گئے۔ نو سال کی عمر میں قرآن کا علم حاصل کیا۔ کاغذ خریدنے کی استطاعت نہ تھی اس لئے کسی سے مؤطا امام مالک لیا اور زبانی یاد کرلیا۔ پھر مدینہ جاکر امام مالکؒ سے ملاقات کی۔ اپنا تعارف کروایا تو امام مالکؒ نے فرمایا: خدا کا تقویٰ اختیار کرو، گناہوں سے اجتناب کرو، اللہ تعالیٰ تمہیں رفعت شان عطا کرے گا۔
آپؒ مدینہ میں امام مالکؒ کی وفات تک ٹھہرے رہے اور اُن سے فیض حاصل کرتے رہے۔ امام احمد بن حنبلؒ نے آپؒ کے بارہ میں فرمایا کہ شافعی دن کے لئے بمنزلہ سورج ہیں اور لوگوں کے لئے عافیت کا موجب۔ ایک روز جب آپؒ امام احمد بن حنبلؓ کی عیادت کو آئے تو امام احمدؒ نے اٹھ کر آپؒ کو بوسہ دیا اور اپنے بستر پر بٹھایا، جب روانہ ہونے لگے تو آپؒ کی سواری کی رکاب تھام کر ساتھ چلتے رہے۔ نیز امام احمد بن حنبل ہر نماز کے بعد دعا کیا کرتے کہ اے اللہ! مجھے، میرے والدین اور محمد بن ادریس شافعی کو بخش دے۔
حضرت امام شافعیؒ بہت سخی تھے۔دوسروں پر فراخدلی سے خرچ کرتے۔ ایک جہان نے آپؒ سے کسب علم کیا۔ 195ھ میں بغداد آئے اور دو سال بعد پھر مکہ چلے گئے۔ 198ھ میں پھر بغداد آئے اور چند ماہ بعد مصر چلے گئے جہاں صرف اڑتالیس سال کی عمر میں وفات پائی۔ آخری بیماری میں جب مزنیؔ آپؒ کی عیادت کو حاضر ہوئے تو آپؒ نے فرمایا:
’’دنیا سے رخصت اور بھائیوں سے جدا ہو رہا ہوں۔ موت کا پیالہ پینے والا ہوں۔ اپنے بداعمال کے ساتھ خدا کے حضور حاضر ہو رہا ہوں۔ مَیں نہیں جانتا کہ میری روح جنت میں جائے گی، اسے مبارکباد دوں۔ کہ جہنم میں ڈالی جائے گی‘‘۔
پھر رونے لگے اور یہ شعر پڑھے:
’’جب میرا دل سخت اور میری راہیں مشکل ہوگئیں تو مَیں نے تیری عفو کی سیڑھی کو اپنی امید بنالیا۔
مَیں نے دیکھا میرے گناہ بہت عظیم ہیں۔ لیکن تیری عفو کو دیکھا تو وہ اس سے بھی بڑی تھی۔
الٰہی ! مَیں نے تجھے گناہ بخشنے والا ہی پایا اور مَیں نے تیری جُود و عفو کے احسان کو ہی محسوس کیا۔‘‘
تمام علماء متفق ہیں کہ امام شافعیؒ ثقہ، امین، عادل، زاہد، متقی، سخی اور اعلیٰ کردار کے مالک تھے۔