حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’امام غزالی ؒ آنحضرتﷺ کے باغ کا ایک پودا تھے جن سے اسلام کی اعلیٰ درجہ کی خوشبو آتی ہے۔ امام غزالی ؒ نے اپنے زمانے میں کتنی عزت پائی!۔ بادشاہ جوتیاں سامنے رکھنے میں عزت محسوس کرتے تھے۔ یہ عزت اُن کی اسلام ہی کی وجہ سے تھی‘‘۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2؍مارچ 2000ء میں حضرت امام غزالیؒ کا تعارف، سوانح اور تالیفات کا ذکر مکرم نعیم طاہر سون صاحب نے اپنے مضمون میں کیا ہے۔
آپؒ کا نام محمد بن محمد بن احمد تھا۔ لقب حجۃالاسلام، عرف غزالی تھا۔ خراسان کے علاقے میں طوس کے ضلع طاہران میں 450؍ہجری میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کے والد محترم سوت بیچتے تھے اور چونکہ غزل کے معنی کاتنے کے ہیں اس لئے غزالی کہلائے۔ امام غزالیؒ نے ابتدائی تعلیم اپنے شہر سے حاصل کی اور پھر جرجان تشریف لے گئے اور امام ابونصر اسماعیلی سے تحصیل علم کیا۔ آپ نے اپنے استاد کے نوٹس اپنی کاپی پر درج کئے۔ جب واپسی کا سفر اختیار کیا تو راستہ میں ڈاکہ پڑا اور ڈاکو آپؒ کی یادداشتیں بھی ساتھ لے گئے۔ آپؒ ڈاکوؤں کے سردار کے پاس گئے اور کہا کہ مَیں اپنے سامان میں سے صرف اپنے استاد کی یادداشتوں کا مجموعہ مانگتا ہوں۔ وہ ہنس پڑا اور کہا کہ تم نے خاک سیکھا جبکہ تمہاری حالت یہ ہے کہ ایک کاغذ نہ رہا تو تم کورے رہ گئے۔ یہ کہہ کر اس نے مجموعہ واپس کردیا لیکن امام صاحبؒ پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ وطن پہنچ کر وہ سارا مجموعہ زبانی حفظ کرلیا۔
اُس زمانہ میں علم کے دو بڑے مراکز تھے، نیشاپور اور بغداد۔ حضرت امام غزالیؒ نیشاپور تشریف لے گئے اور امام الحرمین کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ وہ بڑے پائے کے عالم تھے اور چونکہ مکہ اور مدینہ سے فتوے اُن کے پاس آتے تھے اس لئے وہ امام الحرمین کے لقب سے پکارے جاتے تھے۔ انہوں نے امام غزالی ؒ کے بارہ میں کہا کہ یہ علم کے دریائے زخّار ہیں۔ اُن کے انتقال کے بعد جب امام غزالی ؒ نیشاپور سے نکلے تو آپؒ کی عمر صرف 28 برس تھی لیکن اسلامی دنیا میں آپؒ کے پائے کا دوسرا عالم کوئی نہ تھا۔ پھر آپ نظام الملک کے دربار میں پہنچے۔ یہاں سینکڑوں علماء تھے جن کے ساتھ آپؒ کے بہت سے مباحثات ہوئے مگر ہر مباحثے میں آپؒ ہی غالب رہے۔ اس کامیابی سے آپؒ کو عظیم شہرت حاصل ہوئی اور نظام الملک نے آپؒ کو نظامیہ میں بطور مدرس رکھ لیا۔ اس وقت آپؒ 34 برس کے تھے۔ آپؒ کے درس میں تین سو بلند پایہ علماء تحصیل علم کے لئے حاضر رہتے تھے۔ امام غزالی ؒ تمام علوم کے ماہر اور ہر فن میں امام کا درجہ رکھتے تھے اور حجۃالاسلام کے اعزاز کے صحیح مستحق تھے۔
آپؒ فرماتے ہیں کہ بیس سال کی عمر میں مَیں نے ہر مذہب اور گروہ کے عقائد کا تفصیلی مطالعہ کیا تاکہ حق و باطل میں امتیاز حاصل کرسکوں حتی کہ ہر باطنی، ظاہری، فلسفی، متکلم اور صوفی وغیرہ سے ملاقات کرکے بھی حالات معلوم کئے۔ میرے نزدیک متلاشیان حق کی چار اقسام ہیں یعنی متکلمین (جو خود کو اہل نظر گردانتے ہیں)، باطنیہ (جن کا خیال ہے کہ انوار و معارف کا اکتساب صرف امام معصوم سے ہی ہوسکتا ہے)، فلاسفہ (جو خود کو اہل منطق اور اہل برہان قرار دیتے ہیں) اور صوفیاء (جن کا دعویٰ ہے کہ وہ مکاشفہ و مشاہدہ سے بہرہ ور ہیں۔ مَیں نے دل میں کہا کہ حق ان چار اقسام ہی میں بندھے ہیں۔ امام غزالیؓ مذکورہ چاروں پر بحث کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ میرے سامنے یہ بھی منکشف ہوگیا کہ اخروی سعادت تقویٰ اختیار کرنے اور نفسانی خواہشات کو ختم کئے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی اور تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ قلب، دنیاوی علائق سے علیحدہ ہوجائے اور پوری توجہ اور ہمت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف دھیان دے۔
چنانچہ آپؒ نے اپنا کچھ مال بچوں کے لئے رکھ کر باقی خیرات کردیا اور پھر بغداد چھوڑ کر شام اور حجاز کے سفر پر نکل کھڑے ہوئے۔ کئی صوفیاء کی خدمت میں رہے، حضرت شیخ ابوعلی فارمدیؒ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ مصر بھی تشریف لے گئے اور فلسطین جاکر حضرت ابراہیمؑ کے مزار پر حاضر ہوکر تین باتوں کا عہد کیا کہ کسی بادشاہ کے دربار میں نہیں جائیں گے، کسی بادشاہ کا عطیہ قبول نہیں کریں گے اور کسی سے مناظرہ و مباحثہ نہیں کریں گے۔
14؍جمادی الثانی 505ہجری بروز پیر کی صبح طاہران کے مقام پر امام غزالیؒ بستر سے اٹھے، وضو کرکے نماز پڑھی، پھر کفن منگواکر آنکھوں سے لگایا اور کہا: آقا کا حکم سر آنکھوں پر۔ یہ کہہ کر لیٹ گئے۔ لوگوں نے دیکھا تو فوت ہوچکے تھے۔ طاہران میں ہی تدفین عمل میں آئی۔
آپؒ کی اولاد میں چند لڑکیاں تھیں۔ البتہ شاگرد ہزاروں کی تعداد میں تھے۔ محمد بن تومرت بھی اُن میں سے ایک تھا جس نے سپین میں خاندان تاشفین کو مٹاکر ایک عظیم الشان سلطنت کی بنیاد رکھی۔ حافظ ابن عساکر ؒ اور بہت سے بلند پایہ علماء آپؒ کا شاگرد ہونے پر فخر محسوس کرتے تھے۔ آپؒ نے متعدد تصانیف بھی قلم بند فرمائیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے امام غزالیؒ کے حوالہ سے اُن کے زمانہ کے پیروں فقیروں کی ریاکاری کے حالات بیان کئے ہیں اور فرمایا کہ آج کے پیر اور پیرزادے بھی ایسے ہی ریاکار ہیں کیونکہ خداوالوں کو مخلوق کی پروا نہیںہوتی۔ خدا اُس کی تائید اور نصرت فرماتا ہے اور وہ اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اور جانتا ہے کہ وہ خدا خود اپنی مخلوق کو اُس کے ساتھ کردے گا۔ یہی سرّ ہے کہ انبیاء علیہم السلام خلوت کو پسند کرتے ہیں اور مَیں یقینا اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ وہ ہرگز پسند نہیں کرتے کہ باہر نکلیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کو مجبور کرتا ہے اور پکڑ پکڑ کر باہر نکالتا ہے۔