حضرت امّاں جانؓ کی سیرت
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 3؍جون 2024ء)
میں نے بھی فیض اس کا پایا
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ برائے 2013ء نمبر1 میں مکرمہ فرح دیبا صاحبہ نے حضرت امّاں جانؓ کی سیرت کے حوالے سے اپنی نانی جان محترمہ غلام فاطمہ صاحبہ کی روایات بیان کیں۔ وہ درو یشان قا دیان (313) میں سے سب سے معمر درویش حضرت بھاگ دین صاحبؓ کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔ ابھی قریباً بارہ سال کی تھیں کہ والدہ کے سایہ سے محروم ہوگئیں۔ والد اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔ اس زمانہ میں امرتسر کے حالات بہت خراب ہو رہے تھے۔ مخالفت کا بہت زور تھا۔ ارد گرد کے راجپوت مخالفت میں بہت بڑھے ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ راجپوتوں کی لڑکیاں یہاں سے بیاہ کرکہیں نہیں جائیں گی ہم ان کو اپنے پاس رکھیں گے۔ ان حالات کے پیش نظر ان کے والد ان کو لے کر قادیان آئے اورحضرت اماں جانؓ کے سپرد کر گئے۔ اس طرح اُن کوقریباً ایک سال حضرت اماں جانؓ کے ساتھ کچھ عرصہ رہ کر ان کی صحبت سے فیض یاب ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپ بتایا کرتی تھیں کہ میں حضرت اماں جانؓ کے پاس ایک مہمان کی طرح رہتی تھی۔ پھر ان کے والد کی درخواست پر حضرت اماں جانؓ نے ان کے لیے رشتہ ڈھونڈا۔ اور اس طرح ان کی شادی حضرت عبداللہ صاحبؓ کے ساتھ طے فرما دی۔ انہوں نے بھی حضرت اماں جانؓ کے زیر سایہ پرورش پائی تھی اور اس وقت وہ حضرت اماں جانؓ کے باغ کے نگران تھے اور وصیت کے دفتر میں بھی خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ اُن کا ذاتی باغ بھی حضرت اماں جانؓ کے باغ سے ملا ہوا تھا۔
حضرت اماں جانؓ نے فاطمہ صاحبہ کو اپنے ہاتھوں سے سجایا، سنوارا اورپیدل ہی ان کوبہ نفس نفیس حضرت عبداللہ صاحبؓ کے گھر لے کرگئیں جو قریب ہی تھا۔ وہ ابھی نہا کر تیار ہو رہے تھے کہ دلہن حضرت اماں جانؓ کے ہمراہ ان کے گھر پہنچ گئی۔حضرت اماں جانؓ نے خود چارپائی بچھائی اور پھر بستر لگوایا اور دلہن کو بٹھادیا۔ اس کے بعد مسلسل پندرہ روز تک نائین بجھواتی رہیں۔ (اس وقت دلہن کی چٹیا بنانے اور سجانے والی کو نائین کہتے تھے)۔ یہ ایک بِن ماں اور بےگھر بچی سے حضرت امّاں جانؓ کا حُسنِ سلوک تھا۔