حضرت امّ عمارہ رضی اللہ عنہا

ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ اگست 2002ء میں حضرت امّ عمارہ رضی اللہ عنہا کے بارہ میں ایک مضمون مکرمہ امۃالحئی فائزہ صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت امّ عمارہؓ انصاریہ تھیں اور قبیلہ خزرج کے خاندان نجار سے تعلق رکھتی تھیں۔ جب آنحضورﷺ کے ارشاد پر حضرت مصعب بن عمیرؓ مدینہ تبلیغ کے لئے پہنچے تو حضرت امّ عمارہؓ کا خاندان بھی مسلمان ہوگیا۔ جب مدینہ کے 75 مسلمانوں نے مکہ کے قریب ایک گھاٹی میں آنحضرتﷺ کی بیعت کی تو اُن میں حضرت امّ عمارہؓ بھی شامل تھیں۔
آپؓ نہایت جری اور بہادر خاتون تھیں۔ غزوۂ احد میں شامل ہوئیں۔ زخمیوں کو پانی پلارہی تھیں جب دشمن کی سخت یلغار کے وقت آپؓ بھی آنحضورﷺ کی حفاظت کے لئے سینہ سپر ہوگئیں۔ کئی کافروں کے حملے ڈھال سے روکے، دشمن کے گھوڑے کا پاؤں کاٹ دیتیں اور اپنے بیٹے کی مدد سے کافر سوار کا خاتمہ کردیتیں۔ لڑائی کے بعد آپؓ کا جب ذکر ہوا تو آنحضورﷺ نے فرمایا: ’’مَیں غزوۂ احد میں ان کو برابر اپنے دائیں بائیں لڑتے دیکھتا تھا‘‘۔ لڑائی کے دوران جب ایک کافر کے پتھر سے آنحضورﷺ کے دو دانت شہید ہوگئے اور ابن قمئہ نے تلوار کا وار کیا جس سے خود کے دو حلقے رخسار مبارک میں دھنس گئے اور خون ٹپکنے لگا تو امّ عمارہؓ نے بے اختیار ابن قمئے پر حملہ کیا۔ وہ زرہ پہنے ہوئے تھا اس لئے اُس پر کوئی اثر نہ ہوا لیکن اُس نے جواباً تلوار ماری تو آپؓ کے کندھے پر کاری زخم آیا اور آپؓ خون میں نہا گئیں۔ آنحضورﷺ نے اپنے سامنے کھڑے ہوکر پٹی بندھوائی اور چند بہادر صحابہؓ کا نام لے کر فرمایا: ’’واللہ! آج امّ عمارہ کا کارنامہ اُن کے کارناموں سے بہت زیادہ اہم ہے‘‘۔ آپؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! دعا کیجئے کہ مَیں جنت میں آپؐ کے ساتھ ہوں۔ آنحضورﷺ نے دعا کی تو بولیں: اب مجھے دنیا کی کسی مصیبت کی پرواہ نہیں۔
جنگ اُحد میں آپؓ کا بیٹا عبداللہ بھی زخمی ہوگیا تو آپؓ نے اُس کی خود مرہم پٹی کی اور بولیں: جاؤ بیٹا! اب لڑو۔ آنحضورﷺ نے فرمایا: اے امّ عمارہ! جتنی طاقت تجھ میں ہے، کسی میں کہاں ہوتی ہے۔
آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد جب اہل یمامہ کے سردار مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اُس کو نبی نہ ماننے والے مسلمانوں کو تکلیفیں پہنچانے لگا تو ایک روز امّ عمارہؓ کے بیٹے حبیب بن زیدؓ اُس کے ہاتھ لگ گئے جو عمان سے مدینہ آرہے تھے۔ مسیلمہ کی نبوت کا انکار کرنے پر اُس نے حبیبؓ کے اعضاء باری باری کاٹنے شروع کئے لیکن اُس بہادر نے اپنی شہادت تک کلمہ شہادت کے سوا کچھ منہ سے نہ نکالا۔ اُن کی شہادت کا علم امّ عمارہؓ کو ہوا تو بہت صبر سے برداشت کیا لیکن جب حضرت ابوبکرؓ نے مسیلمہ کے خلاف حضرت خالدؓ بن ولید کی قیادت میں چار ہزار مسلمانوں کا لشکر روانہ فرمایا تو امّ عمارہؓ بھی حضرت ابوبکرؓ کی اجازت سے لشکر کے ساتھ ہولیں۔
مسیلمہ کذاب کے ساتھ مسلمانوں کا سخت مقابلہ ہوا اور بارہ سو مسلمان شہید ہوئے۔ کفار اس سے کہیں زیادہ (آٹھ نو ہزار) مارے گئے۔ لڑائی کے دوران امّ عمارہ اپنی برچھی اور تلوار لے کر دشمن کی صفیں چیرتی اور زخم کھاتی ہوئیں مسیلمہ کے قریب پہنچیں اور ابھی وار کرنا ہی چاہتی تھیں کہ دو تلواروں نے مسیلمہ کا خاتمہ کردیا۔ دیکھا تو آپؓ کے بیٹے عبداللہ کھڑے تھے۔ ایک تلوار اُن کی تھی اور ایک وحشی بن حرب کی۔ اُمّ عمارہ اپنے بیٹے کو دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور اُسی وقت سجدۂ شکر ادا کیا۔ لیکن چونکہ بہت زخمی ہوچکی تھیں اور ایک ہاتھ بھی کٹ چکا تھا اس لئے بہت کمزوری ہوگئی تھی۔ حضرت خالدؓ نے تیمارداری اور علاج میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی چنانچہ صحت یاب بھی جلد ہوگئیں۔
حضرت عمرؓ بھی امّ عمارہؓ کا بہت احترام فرماتے۔ ایک بار مال غنیمت میں بیش قیمت کپڑے آئے جن میں ایک نہایت قیمتی دوپٹہ بھی تھا۔ بعض نے کہا کہ یہ اپنے بیٹے عبداللہ کی بیوی کو دیدیں۔ آپؓ نے فرمایا: مَیں سب سے زیادہ حقدار امّ عمارہ کو سمجھتا ہوں کیونکہ رسول اللہﷺ نے اُحد کے دن فرمایا تھا کہ مَیں جدھر نظر ڈالتا تھا امّ عمارہ ہی امّ عمارہ لڑتی نظر آتی تھیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں