حضرت اُسَید بن حُضیرؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16؍جنوری 2006ء میں مکرم فرخ سلمانی صاحب کے قلم سے تین انصاری صحابہ یعنی حضرت اُسید بن حضیرؓ، حضرت سعد بن معاذؓ، حضرت سعد بن عبادہؓ کے مناقب اور خدمات کا ذکر شامل اشاعت ہے۔ انصار کے دو بڑے قبائل اوس اور خزرج تھے۔ حضرت اُسید بن حضیر ؓ قبیلہ اوس کے سردار تھے۔ حضرت سعد بن معاذؓ اوس کے ایک قبیلہ بنوعبدالاشہل کے سردار تھے اور حضرت سعد بن عبادہ ؓ قبیلہ خزرج کے سردار تھے۔ اس لحاظ سے یہ تینوں صحابہ روحانی اور ظاہری لحاظ سے بھی اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ وہ لوگ جو جاہلیت میں بہترین تھے وہ اسلام میں بھی بہترین ہوسکتے ہیں بشرطیکہ دین کا علم حاصل کریں اور قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کریں۔ یہ تینوں صحابہ حضور ﷺ کے اس قول کی بہترین مثال ہیں۔
آپ کا نام اسید اور کنیت ابو یحییٰ تھی۔ قبیلہ اوس کی شاخ بنو عبد الاشہل میں سے تھے لیکن پورے اوس قبیلہ کی سرداری آپ کو وراثت میں ملی تھی۔ آپ کے والد حضیر ہجرت سے پانچ سال قبل خزرج کے ساتھ جنگ میں مارے گئے تھے۔ ہجرت سے قبل یہودی اوس اور خزرج قبائل کو آپس میں لڑاتے رہتے تھے اور لڑنے کے لئے دونوں کو سود پر رقم دیتے تھے۔
آپؓ نے رسول اللہ ﷺ کی مدینہ آمد سے ایک سال قبل حضرت مصعب بن عمیرؓ کے ہاتھ پر قبول اسلام کی سعادت حاصل کی جنہیں اسلام کے مبلغ کے طور پر انصار کی درخواست پر مدینہ بھجوایا گیا تھا۔ جب اُن کی پُرحکمت تبلیغ سے ایک قبیلہ کے سردار حضرت اسعدؓ بن زرارہ مسلمان ہوگئے تو انہوں نے کہا کہ حضرت مصعبؓ سے کہا کہ اگر تم ہمارے قبیلے کے سردار کو مسلمان کرلو تو بہت سہولت ہوجائے گی۔ حضرت مصعب ؓ نے کہا کہ انہیں کسی وقت میرے پاس لے آئیں۔ چنانچہ اسعدؓ اپنے ہمراہ اسید کو لے آئے۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ کی زبان میں خداتعالیٰ نے ایسی تاثیر رکھی تھی کہ انہوں نے قرآن کریم کی چند آیات سنائیں اور اسلام کا معمولی تعارف کروایا تھا کہ اسیدؓ نے اسلام قبول کرلیا۔ اور پھر سعد بن معاذ کو لے حضرت مصعبؓ کے پاس پہنچے۔ اُن کی سعادتمندی کا بھی یہ حال تھا کچھ ہی دیر میں اسلام قبول کرلیا۔ ہجرت مدینہ کے بعد رسول اللہﷺ نے حضرت زیدؓ بن حارثہ کو حضرت اسیدؓ کا بھائی بنادیا۔
حضرت اسیدؓ نے کئی اہم خدمات کی توفیق پائی۔ غزوۂ بدرمیں آپ کی شرکت کے متعلق اختلاف ہے لیکن میدان احد میں یہ شدید زخمی ہوئے۔ جنگ خندق میں رسول ﷺ نے ان کی ڈیوٹی لگائی تھی کہ آپ دو سو آدمیوں کو لے کر خندق کی حفاظت کریں۔
صلح حدیبیہ سے قبل ابوسفیان نے ایک شخص کو رسول اللہﷺ کے قتل کے لئے بھیجا۔ آپؐ بنو عبدالاشہل کی ایک مسجد میں نماز پڑھا کر بیٹھے ہوئے تھے کہ اُس شخص نے اپنا خنجر نکال کر آنحضورﷺ پر حملہ کرنا چاہا لیکن حملہ سے قبل ہی اُسیدؓ بن حضیر نے، جو اس کی حرکتوں کو دیکھ رہے تھے، اس کو پکڑلیا۔
فتح مکہ کے وقت آنحضورﷺ کے ہمراہ حضرت ابوبکر صدیقؓ مہاجرین کے نمائندہ کے طور پرتھے اور حضرت اسیدؓ بن حضیر انصار کے نمائندہ کے طور پر ساتھ تھے۔ غزوۂ حنین میں بھی اوس کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں تھا۔ آنحضورﷺ کی وفات پر سارے قبیلے کے ساتھ آپؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کی۔ 16ہجری میں حضرت عمر ؓ کے ساتھ شام کی طرف سفر پر گئے اور اس سے واپسی پر وفات پائی۔ ان کی اولاد میں صرف ایک لڑکے کا ذکر ملتا ہے جس کا نام غالباً یحییٰ تھا اسی لئے آپ کی کنیت ابو یحییٰ کہلاتی ہے۔ ان کی وفات ہونے لگی تو ان کے ذمہ کچھ قرض تھا۔ انہوں نے کہا کہ میری جائیداد کو بیچ کر قرض ادا کردیا جائے۔ حضرت عمرؓ نے سوچا کہ اگر جائیداد بیچ دی گئی تو ان کی اولاد کیا کرے گی تو آپؓ نے وقفہ وقفہ کے بعد اس زمین سے ملنے والی رقم سے قرض ادا کیا اور جائیداد کو بچالیا۔ حضرت عمرؓ کہتے تھے کہ میں کس طرح دیکھ سکتا ہوں کہ میرے بھائی کا بیٹا دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلائے۔
آپؓ رسول اللہ ﷺ کے بہت مقرب صحابی تھے اسلام پر بہت فخر کرتے تھے۔ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کے پاس کچھ کفار بیٹھے تھے۔ اس موقعہ پر آپ کی رائے کفار کے مخالف تھی۔ اس پر ایک کافر نے کہا کہ تمہارا باپ تم سے اچھا تھا۔ آپؓ نے کہا نہیں، میں تم سے بھی اچھا ہوں اور اپنے باپ سے بھی اچھا ہوں کیونکہ میں محمدﷺ کا ماننے والا ہوں اور مسلمان ہوں۔ میرا باپ تو کفر کی حالت میں مرگیا تھا۔
حضرت اسیدؓ بہت صاحب علم صحابی تھے۔ بہت سے مقرب صحابہ مثلاً حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ابو سعید خدری ؓ نے آپؓ سے روایات کی ہیں۔ بخاری میں ان کا تلاوت قرآن کا واقعہ ملتا ہے کہ ایک رات آپ نماز میں تلاوت قرآن کریم کر رہے تھے۔ قریب ہی ایک گھوڑا بندھا ہوا تھا۔ جب آپ تلاوت کرتے تھے تو گھوڑا اچھلنے لگتا تھا جیسے خوشی سے اچھل رہا ہے۔ تلاوت بند کی تو گھوڑا رُک گیا۔ پھر آپؓ نے تلاوت شروع کی تو پھر وہ خوشی سے اچھلنا شروع ہوگیا۔ تین چار مرتبہ ایسا ہوا۔ صبح انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں یہ واقعہ عرض کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ فرشتے تمہاری تلاوت اور قرأت سننے کے لئے آئے تھے اور اگر تم صبح تک قرآن پڑھتے رہتے تو ہوسکتا تھا کہ تم فرشتوں کو بھی دیکھ لیتے۔
صحیح بخاری میں یہ واقعہ ملتا ہے کہ اسیدؓ اور ایک اَور صحابی رات دیر تک آنحضورﷺ کے ساتھ مشورہ میں شامل رہے۔ جب نکلے تو بہت اندھیری رات تھی اور بارش اور آندھی کا موسم تھا۔ طبعاً دل میں خیال آیا کہ ایسی حالت میں گھر کیسے پہنچا جائے گا۔ اچانک دیکھا کہ سامنے ایک روشنی چلنی شروع ہوگئی ہے اور وہ روشنی ان کے ساتھ ساتھ اسی راستہ پر چلتی چلی گئی جہاں انہوں نے جانا تھا یہاں تک کہ جب ان دو صحابہ کے گھر جانے کے راستے الگ ہوگئے تو وہ روشنی بھی دوٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی اور دونوں کے ساتھ ساتھ چلتی رہی یہاں تک کہ وہ گھر پہنچ گئے اور پھر روشنی ختم ہوگئی۔
آنحضرتﷺ نے ایک بار خوش ہوکر فرمایا کہ اسید کیا ہی اچھے آدمی ہیں۔