حضرت بابا شیر محمد صاحب بنگوی یکہ بان
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11؍نومبر2004ء میں حضرت بابا شیر محمد صاحب بنگوی ؓ کا ذکر خیر مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
جماعت احمدیہ بنگہ ضلع جالندھر سرمائے کے لحاظ سے بہت مفلس اور کم مایہ تھی لیکن ایمان و اخلاص اور نور و روحانیت کی دولت سے مالا مال تھی۔ ان بزرگ وجودوں میں ایک نام حضرت بابا شیر محمد صاحبؓ کا بھی ہے۔ آپؓ کھوجہ قوم کے ایک فرد تھے اور پیشہ کے لحاظ سے ایک غریب یکّہ بان تھے۔ آپ کے ایک بھائی حضرت میاں چانن صاحبؓ بھی ایک مخلص احمدی تھے اور وہ بھی یکہ بانی کرتے تھے۔ آپ نے آخری عمر تک اسی پیشہ کو ذریعہ معاش رکھا۔
حضرت بابا شیر محمد صاحبؓ تک احمدیت کا پیغام حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحبؓ گوڑیانی (یکے از 313 اصحاب۔وفات 9جون 1921ء) کے ذریعہ 1898ء میں پہنچا تو آپؓ نے بغیر کسی توقّف کے احمدیت کو گلے لگا لیا۔ حضرت ڈاکٹر صاحبؓ اُن دنوں پلیگ ڈیوٹی پر مامور تھے اور اسی سلسلہ میں انہیں بابا شیر محمد صاحب کے یکہ پر سوار ہونے کا موقعہ ملا تھا۔
قبول احمدیت کے بعد پھر اس سچائی کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے حضرت شیر محمد صاحبؓ ہروقت کوشاں رہتے ، سواریوں کو ان کی منزل تک پہنچانے کے علاوہ زندگی کی روحانی منزل تک پہنچانا بھی اپنا فرض سمجھ رکھا تھا۔ حضرت مصلح موعود نے جلسہ سالانہ 1933ء کے موقع پر مستورات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’شیر محمد ایک یکہ بان اَن پڑھ جاہل تھا مگر تبلیغ کرنے کا اسے سلیقہ آتا تھا۔ جب یکہ چلانے بیٹھتا تو ایک کتاب حضرت صاحب کی ہاتھ میں لے لیتا اور کسی پاس بیٹھے ہوئے کو کہتا کہ مجھے سناؤاس طرح سے وہ تبلیغ کرتا تھا۔غرض جاہل، اَن پڑھ اگر مطلب کی مفید باتیں جانتا ہے تو وہ عالم ہے جاہل نہیں ہے‘‘۔
ایک مضمون نگار لکھتے ہیں: ’’میاں شیر محمد یکہ والے (جو ایک مخلص اور باعمل احمدی ہیں اور باوجود یکہ کا پیشہ رکھنے کے خدا تعالیٰ کے ساتھ خاص تعلق رکھتے ہیں اور تبلیغ احمدیت کا اہم فرض ہر موقعہ پر ادا کرتے رہتے ہیں) بنگہ سے ہی ہمارے ساتھ ہولیتے تھے ان کی تبلیغ کا یہ حال ہے کہ اگر گھوڑے کو پانی پلانے کے لئے اترے تو پانی پلانے والے سے ہی ذکر لے بیٹھے کہ میری سواریاں قادیان سے آئی ہیں مرزا صاحب آئے ہوئے ہیں، مرزا صاحب مسیح تھے، مہدی تھے۔ اور یکّہ میں اپنے پاس اخبار رکھ چھوڑا جہاں کہیں کوئی پڑھا لکھا آدمی سوار ہوا فوراً کہا صاحب! ذرا اسے سنا دیجئے، کیا لکھا ہے اور تبلیغ شروع کردی۔ اس قسم کے با خدا آدمی کے ساتھ سفر کرنا ہمارے لئے موجب برکت تھا‘‘۔
حضرت بابا شیر محمد صاحبؓ کو حضور علیہ السلام سے گہری عقیدت اور عشق تھا۔ حضورؑ کی وفات کے بعد حضورؑ کے خاندان کی خدمت بجالانا وہ اپنی زندگی کا مقصد سمجھتے تھے۔ دسمبر1908ء میں حضرت مصلح موعود، حضرت میر محمد اسحٰق صاحب کے ساتھ کاٹھ گڑھ ضلع جالندھر کے سفر پر تشریف لے گئے۔ اس دوران دو راتیں بنگہ میں بھی مقیم رہے۔ جب بنگہ سے روانہ ہونے لگے تو حضرت بابا شیر محمد صاحبؓ (یکہ بان) ایک نیا یکہ لے کر کھڑے تھے۔ آپؓ نے عرض کی کہ میرا ایک خواب ہے، حضور اُسے پورا فرمائیں اور وہ یہ ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ تشریف لائے ہیں اور میں نے حضورؑ کو اپنے ٹانگہ میں سوار ہونے کے لئے عرض کی لیکن اس یکہ کا پائیدان نہیں تھا میں نے عرض کی کہ حضورؑ میری پیٹھ پر پاؤں رکھ کر سوار ہوجائیں چنانچہ حضورؑ نے میری عرض قبول فرمائی اور اسی طریق سے یکہ پر سوار ہوگئے۔ اس خواب کے ماتحت میں نے یہ ٹانگہ بنوایا ہے اور دانستہ اس میں پائیدان نہیں لگوایا، اب میں جھکتا ہوں اور حضورؓ میری پیٹھ پر پاؤں رکھ کر سوار ہوجائیں تاکہ میرا خواب پورا ہوجائے۔ محض بابا شیر محمد صاحب کی اس رؤیا کی بناء پر حضرت مصلح موعودؓ نے ان کی پشت پر قدم رکھا اور سوار ہوگئے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ جب 1924ء میں یورپ تشریف لے گئے تو اخبار الحکم نے لکھا: ’’احباب اپنے امام و آقا کو اس دینی سفر پر روانہ کر نے اور خداحافظ کہنے کے لئے دُور دُور سے آرہے ہیں… بنگہ سے میاں شیر محمد صاحب مشہور یکہ بان جو حضرت مسیح موعودؑ کا ایک نشان ہیں، آگئے ہیں اور حضرت کے ہمراہ پھگواڑہ تک جائیں گے‘‘۔
آپؓ کو قادیان سے بھی بہت محبت تھی۔ خود موقعہ نکال کر آتے رہتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ جب مجھے کوئی تکلیف ہوتی ہے یا طبیعت میں پریشانی ہوتی ہے تو میں قادیان آجاتا ہوں، یہاں آکر طبیعت میں سکون اور تسلی ہوجاتی ہے۔ قادیان سے آنے والے مرکزی نمائندوں سے بہت عزت و اخلاص سے پیش آتے اور اپنی یکہ بانی کی خدمات پیش کرتے۔
آپؓ کی وفات پر حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے لکھا کہ صوفی بابا شیر محمد بنگویؓ اپنے پھٹے پرانے کپڑوں اور اپنی غربت و عسرت میں کبھی صاحبِ امتیاز نہیں تھے لیکن اپنے دل کی صفائی، اپنی عقیدت و اخلاص کی وجہ سے نوری حُلّوں میں ملبوس تھے۔ دنیا دار کی آنکھ اسے نہیں دیکھتی تھی لیکن متقی مومن کی فراست اسے دیکھتے ہی پہچان لیتی تھی اور وہ گدڑی میں لعل تھے۔ آپؓ ایک عام یکہ بان تھے لیکن ضلع جالندھر میں احمدیت کا بنیادی پتھر تھے۔ طبعی طور پر نہایت ذہین اور زیرک تھے۔ یکہ بانوں کی طرح زبان پر گالی گلوچ قطعاً نہ تھی اور لوگوں کو حیرت تھی کہ سالہا سال کے محاورات اور کلمات جو زبان پر جاری ہوگئے تھے وہ یکدم کیونکر موقوف ہوگئے اور ان کی جگہ سبحان اللہ اور استغفراللہ نے کیونکر لے لی مگر یہ حضرت مسیح موعودؑ کا ایک معجزہ تھا۔ ان پر مختلف قسم کی آزمائشوں اور ابتلاؤں کا دَور بھی آیا۔ پے در پے گھوڑے مرگئے اور کئی قسم کے نقصان ہوئے یہاں تک کہ بعض اوقات عرصہ حیات تنگ ہو گیا مگر اس شیر نے ان مصائب میں اپنے مولیٰ سے صدق اور اخلاص کے رشتہ کو آگے بڑھایا، پیچھے قدم نہیں ہٹایا۔ اس کی زندگی عسرت کی زندگی تھی مگر وہ اس میں ہی مست تھا۔ اپنے احمدی بھائیوں سے محبت اور ان کی ہمدردی اس کی فطرت ثانیہ ہوگئی تھی میں جانتا ہوں کہ باوجود خود تنگدست ہونے کے وہ ایک تہی دست شریف احمدی کے بال بچوں کی مخفی طور پر مدد کرتا تھا۔ افسوس ہے کہ اس احمدی کو اپنی کسی شامت اعمال کی وجہ سے ابتلا آگیا اور وہ منحرف کی موت مرا مگر صوفی شیر محمد نے اس کے بچوں کے ساتھ اپنے سلوک کو نہ چھوڑا… حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعدخلافت کے ساتھ اخلاص و صدق سے وابستہ رہے۔ حضرت خلیفہ اولؓ کے زمانہ میں جب فتنہ پیدا ہوا تو وہ بڑے اخلاص اور جوش کے ساتھ اس فتنہ کی مخالفت میں کھڑے رہے اور جب حضرت خلیفہ اولؓ کے وصال پر جماعت میں تفرقہ پیدا ہوا تو انہوں نے دامنِ خلافت کو مضبوطی سے پکڑے رکھا اور حضرت مسیح موعودؑ کے اہل خانہ سے محبت و اخلاص کو اپنے ایمان کا ضروری جزو یقین کرتے تھے۔ وہ نماز اور روزہ کے پورے پابند تھے اور تہجد بھی پڑھتے تھے۔ انہوں نے اپنی عملی زندگی سے یہ دکھا دیا کہ کس طرح ایک شخص حضرت مسیح موعود کی صحبت میں آکر اپنی زندگی میں حیرت انگیز تبدیلی کر سکتا ہے۔ …آنے والی نسلیں شیر محمد ابدال کے نام سے اسے یاد کریں گی۔ میں اپنے جدا ہونے والے بھائی کی موت پر افسوس کے آنسو نہیں بہاتا بلکہ اس کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کرتا ہوں کہ وہ ہم سے پیچھے آکر پہلے خدا کی بادشاہت میں داخل ہوگیا۔‘‘
حضرت شیر محمد صاحبؓ نے ستر برس کی عمر میں 1929ء کے آخر میں وفات پائی۔ آپؓ موصی تھے۔