حضرت بابا محمد حسن صاحبؓ
نظام وصیت میں شامل ہونے والا پہلا بابرکت وجود
حضرت بابا محمد حسن صاحبؓ
(ناصر محمود پاشا)
(مطبوعہ انصارالدین مارچ اپریل 2016ء)
اگرچہ عملاًپہلی وصیت حضرت نورالدین صاحبؓ ولد اللہ بخش صاحب آف لاہورنے کی تھی لیکن قواعد و ضوابط کے مطابق پہلی وصیت حضرت بابا محمد حسن صاحبؓ اوجلوی کی منظورکی گئی جوکہ 1/5حصہ کی تھی۔ اس طرح آپؓ وہ خوش قسمت شخص ہیں جن کے بارہ میں سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اپنی کتاب ’نظام نو‘ میں فرماتے ہیں : ’’کیاہی خوش قسمت اور قابل رشک ہے وہ مبارک وجود جسے اس ’’نظام نو‘ ‘ (نظام وصیت) میں سب سے اوّل لبیک کہنے کا شرف حاصل ہوا اور جسے’’نظام نو‘‘ کی بنیادی اینٹ بننے کی توفیق ملی‘‘۔
حضرت بابا محمد حسن صاحب کی ولادت 11 جولائی 1870ء کو (قادیان سے 17 میل کے فاصلہ پر واقع گاؤں) اوجلہ ضلع گورداسپور میں ہوئی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گھرپرہی حاصل کی۔ گھریلو حالات بہتر نہ ہونے کے سبب بمشکل پرائمری سکول تک تعلیم حاصل کی۔ 1892ء میں آپ کی شادی ہوئی اور 1893ء میں آپ کے ہاں حضرت مولانا رحمت علی صاحب ؓ کی ولادت ہوئی (جنہیں بعدازاں لمبا عرصہ جاوا اور سماٹرا میں دعوت الی اللہ کی سعادت عطا ہوئی)۔ 1895ء میں حضرت بابا محمد حسن صاحب نے بیعت کا شرف حاصل کیا۔ (مختلف روایات کے مطابق آپ کی بیعت 1893ء یا 1895ء کی ہے )۔ بیعت کے بعد آپؓ ارادہ فرماچکے تھے کہ قادیان میں جابسیں۔اس کا موقع 1902ء میں ملا اور آپؓ قادیان ہجرت کرکے تشریف لے آئے۔ 5مارچ 1906ء کو پہلے موصی ہونے کا شرف حاصل کیا۔ قیام پاکستان کے بعد چنیوٹ آگئے جہاں تا وفات (20؍ جولائی 1950ء) حسب ارشاد حضرت مصلح موعودؓ مسجد احمدیہ میں مقیم رہے۔
حضرت بابا محمد حسن صاحب اپنی قبول احمدیت کی داستان یوں بیان فرماتے ہیں کہ میں حضرت مسیح موعودؑ کا سخت مخالف تھا اور بحیثیت چھٹی رساں ڈاکخانہ میں ملازم تھا۔ اپنے چچازاد بھائی منشی عبدالعزیز اوجلویؓ کو احمدیت کی وجہ سے سخت الفاظ کہہ دیا کرتا مگر حضرت اقدسؑ کی شان میں برے الفاظ نہ کہتا۔ آخر ایک روز میرے دل میں خیال آیا کہ گزشتہ انبیاء کے وقت میں بھی بہت سے لوگ شک میں رہے۔ ایسا نہ ہو کہ حضرت مرزا صاحب واقعی وقت کے امام ہوں اور میں منکرین کے زمرہ میں شامل ہو جائوں۔ چنانچہ میں نے اس معاملہ میں خداتعالیٰ سے رو رو کر دعائیں کرنا شروع کیں۔ رات کو قبرستان میں، گاؤں کی مسجد میں اور جنگل میں جاکر بھی دعائیں کرتا اور روتا۔ جب چودہ روز اس طرح دعائیں کرتے گزر گئے اور مَیں اُس رات جنگل میں درودشریف پڑھ رہا تھا کہ مجھے یکدفعہ غنودگی آئی اور دائیں طرف سے مجھے آواز آئی۔ تیرا نام کیا ہے ؟ میں نے کہا محمد حسن۔ پھر میں نے اس بلانے والے سے دریافت کیا کہ تیرا کیا نام ہے ؟ اتنے میں میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے ارد گرد دیکھا تو کوئی آدمی نہ تھا۔ میں حیران ہوکر پھر درود شریف پڑھنے میں مشغول ہوگیا۔ اگلی رات میں نے خواب میں قادیان دیکھا اور مسجد اقصیٰ میں کثرت سے لوگ دیکھے۔ ایک شخص کو کھڑے تقریر کرتے دیکھا۔کسی نے مجھے کہا کہ یہ خلیفہ ہے۔ مَیں نے کہا مَیں خلیفہ نہیں پوچھتا۔ مَیں اصل امام وقت پوچھتا ہوں۔ اس نے کہا کہ ذرا ٹھہرجائو۔ پھر حضرت مسیح موعودؑ تشریف لائے اور اس شخص نے کہا کہ یہ اصل امام وقت ہیں۔ میں حضورؑ کے سامنے جا بیٹھا اور خواب میں بیعت کرنے لگا۔ جب یہ الفاظ بیعت پڑھے:
رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ فَاِنَّہُ لَایَغْفِرُالذَّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ
تو میری چیخیں نکل گئیں اور لوگ کہنے لگے کہ یہ سچّا ایمان لایا ہے۔ پھر میری آنکھ کھل گئی۔ مگر پھر میں دوبارہ سو گیا تو خواب دیکھا کہ حضرت عیسیٰؑ کو حضرت جبرائیل ؑ ایک جنگل میں چھوڑ گئے ہیں۔
میں نے اپنی خوابیں کسی کو نہ بتلائیں لیکن اُسی روز میرے بھائی منشی عبدالعزیز صاحب نے مجھے کہا کہ قادیان جلسہ ہے کیا تم چلوگے؟ میں نے کہا ہاں۔ راستہ میں مَیں نے اُن سے پوچھا کہ کیا بیعت کے وقت
رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ فَاِنَّہُ لَایَغْفِرُالذَّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ
پڑھاتے ہیں۔ اُس نے کہا کہ تمہیں کیسے پتہ ہے؟ مَیں خاموش ہوگیا۔ جب قادیان پہنچا تو جو نظارہ میں نے خواب میں دیکھا تھا وہی قادیان میں دیکھا۔ جب مسجد اقصیٰ میں گیا تو ایک شخص کھڑا ہو کر تبلیغ کرنے لگا۔ یہ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ تھے۔ میں نے خواب میں انہی کو تقریر کرتے دیکھا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت مسیح موعودؑ تشریف لائے۔آپؑ کی وہی شکل تھی جو میں نے خواب میں دیکھی تھی۔ پھر مَیں نے بیعت کر لی اور الفاظ بیعت میں رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ والی دعا بھی پڑھی۔ بیعت کرتے ہی میرے دل میں یہ گزرا کہ اب قادیان نہ چھوڑنا چاہیے خواہ بھیک مانگ کر ہی گزارہ کرنا پڑے۔ پھر ہر جمعہ پیدل قادیان جاکر پڑھتا رہا۔
مَیں اپنے گائوں اوجلہ میں اکیلا احمدی تھا۔ اس وجہ سے کچھ گھبرا گیا اور اس امر کے متعلق ایک عریضہ لکھ کر حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ رقعہ ابھی میرے پاس ہی تھا مگر حضور ؑ نے میرے بیٹھتے ہی بات شروع کردی کہ بعض دوست گھبراتے ہیں … گائوں یا شہر میں متّقی کو آرام ہو تو خدا اسی جگہ اس کے ساتھ ایک جماعت بنا دیتا ہے۔ چنانچہ میں پھر واپس گائوں چلا گیا۔ لیکن تھوڑے دنوں کے بعد ہی خداتعالیٰ نے میرے قادیان آنے کا انتظام فرمادیا اور میں مارچ 1902ء میں قادیان ہجرت کرکے آگیا اور رسالہ ریویو آف ریلیجنز اردو کی جلدبندی کا ٹھیکہ لے لیا۔ میں نے مولوی محمدعلی صاحب سے کہا کہ اگر یہ رسالہ ہر ماہ کی 20تاریخ تک تیار نہ ہو تو میں ہرجانہ کا ذمہ دار ہوں مگر میں یہ چاہتا ہوں کہ مجھ کو حضرت مسیح موعودؑکی مجلس اور سیر وغیرہ پر ہمراہ جانے سے نہ روکا جائے اور حضرت مولوی نورالدین صاحب کے درس میں شامل ہونے سے نہ روکا جائے۔ وہ مان گئے اور مجھ کو ایک چپڑاسی دیدیا گیا جس کا نام اللہ دتہ تھا۔ میں نے اسے کہا کہ ایک وقت کھانا مجھ سے کھایا کرو اور اس کے عوض جب حضورؑ گھر سے باہر تشریف لائیں مجھے اطلاع کرتے رہا کرو۔ اسی وجہ سے میں حضورؑ کی صحبت میں زیادہ رہا۔‘‘
آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ قادیان آنے کے تھوڑے عرصہ بعد میرا ایک شیرخوار لڑکا فوت ہوگیا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے آتے ہی بچہ کی وفات کی وجہ پوچھی ۔ میں نے عرض کیا کہ میرے خیال میں اٹھرا تھا۔ اس کے بعد میں خاموش ہوگیا۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا: محمدحسن اولاد کس کام کے لئے ہوتی ہے۔ اولاد مشکل وقت میں کام آنے کے لئے ہوتی ہے۔ پھر فرمایا : محمدحسن! انسان پر دو مشکل اوقات آتے ہیں۔ ایک دنیا میں اور ایک آخرت میں۔ دنیا میں اگر اولاد بڑی عمر کی ہو جاتی ہے اور باپ بوڑھا ہوجاتا ہے اور اولاد کو نصیحت کرنا چاہتا ہے تو اولاد کہتی ہے: ابا جی آپ کی باتیں ہمیں پسند نہیں آتیں۔ ایسی نصیحتیں آپ ہمیں نہ کریں ورنہ ہم الگ ہوجائیں گے یا کسی اور جگہ چلے جائیں۔ یہ بات سن کر ماں باپ کا دل بہت غمگین ہوجاتا ہے کہ اب ہم کیا کریں۔ دوسرا مشکل وقت انسان پر آخروقت میں آتا ہے۔ دوزخ اور بہشت سامنے ہوتا ہے۔ آدمی کو غم پر غم ہوتا ہے نابالغ بچے جو فوت ہو جاتے ہیں انہیں کہا جائے گا تم بہشت میں چلے جائو۔ وہ بچے بہشت میں چلے جائیں گے۔ اس جگہ دیکھیں گے کہ ان کے ماں باپ نہیں ہیں، وہ رونے لگ جائیں گے اور کہیں گے: اے ربّ! ہمارے ماں باپ کہاں ہیں جس جگہ ہمارے ماں باپ ہیں ہمیں وہاں پہنچادے۔ حکم ہوگا اپنے ماں باپ کو تلاش کرکے لائو پھر وہ اپنے ماں باپ کو تلا ش کرکے پہلے ان کو بہشت میں داخل کریں گے بعد میں خود داخل ہوں گے۔ پھر مجھ کو حضرت اقدس فرمانے لگے ’’محمد حسن ! یہ اولاد اچھی یا و ہ اولاد اچھی جو بڑی ہو کر سرکشی اختیار کرتی ہے‘‘۔
آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ مَیں دفتر ریویو میں ہی کام کرتاتھا۔ ایک روز حضرت مسیح موعود ؑ نے آدھی رات سے ایک مضمون لکھنا شروع کیا اور پریس میں کاپی نویسوں کوحکم دیا کہ باقی سب کاموں کوچھوڑ کر اس مضمون کو لکھو تاکہ یہ آج ہی چھپ جائے۔ یہ کتاب الوصیت تھی۔ چنانچہ یہ کتاب چھپنی شروع ہوگئی اور میں نے رات کو ہی ایک دفعہ پڑھی۔ پھر اکیلا بیٹھ کر لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْن کی آیت مدنظر رکھ کر سوچا کہ محمدحسن تم زمیندار کو نہری زمین پسند ہوتی ہے۔ چنانچہ میں نے اپنی نہری زمین وقف کرنے کا ارادہ کر لیا۔ پھر میرے دل میں آیا کہ قادیان میں تجھے کیا چیز پیاری ہے۔ اس وقت قادیان میں مکان نہیں ملتے تھے مگر میں نے مکان خرید لیا ہواتھا۔ پس میں نے مکان کو بھی دین کے لئے وقف کرنے کا ارادہ کر لیا۔میں اپنی زندگی دین کے لئے پہلے ہی وقف کرچکا تھا۔ میں نے سوچا کہ اب تمہارے پاس کیا رہا۔ اس خیال سے میرا دل نہایت خوش ہوا کہ میرا سب مال خدا کا مال ہو گیا اور میں نے اپنے پاس کچھ نہیں رکھا۔ صبح ہوتے ہی میں نے ایک دوست کو بلاکر وصیت لکھوائی کہ میری زمین، میرا مکان اور میری زندگی خداکے لئے وقف ہے۔ یہ وصیت میں نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں بھیج دی۔ میرا یہ طریق تھا کہ جب کبھی کوئی عریضہ حضرت اقدسؑ کی خدمت میں روانہ کرتا تو اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ رقم بھیج دیتا۔ اس وصیت کے ساتھ بھی ایک روپیہ بھیجا۔ جس وقت حضرت اقدس کی خدمت میں میری وصیت پہنچی، اُسی وقت دفتر کے منشی سے حضورؑ نے نیا رجسٹر منگوایا اور میرا نام اس رجسٹر میں سب سے اوّل نمبر پر درج فرمایا۔ اور وہ روپیہ جو میں نے وصیت کے ساتھ بھیجا تھا پہلی شرط میں داخل کر دیا۔ اس طرح سب سے اوّل موصی مَیں ہوا۔پھر حضرت مسیح موعودؑ نے اس روز جلسہ کر کے میری وصیت کے الفاظ اشاروں سے بتادیئے اور فرمایا کہ جو شخص کسی نیک کام کو پہلے کرتا ہے وہ سب کے درجے لے جا تا ہے۔
آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ نے ایک روز جلسہ کیا جس میں لوگوں کے مشورہ سے مدرسہ دینیات کھولنے کی تجویز ہوئی۔ بعد میں حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ دینیات کی شاخ علیحدہ کھولی جائے اور اس میں لڑکے داخل کئے جائیں۔ میرا ایک ہی لڑکا تھا ( یعنی مولوی رحمت علی مبلغ جاوا و سماٹرا ) میں نے اس کو مدرسہ احمدیہ میں داخل کرنا چاہا مگر مولوی محمد علی صاحب نے اس کو داخل کرنے سے انکار کردیا۔ میر الڑکا چھوٹا تھا۔ تیسرے روز رات کو میں نے اپنے بچے کو کہا کہ میں بیٹا کوشش تو بہت کرتا ہوں مگر وہ مدرسہ میں تمہیں داخل نہیں کرتے۔ میرے لڑکے نے صبح ہوتے ہی مجھ کو کہا کہ میاں جی مجھ کو الہام ہوا ہے فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ (پس اللہ تعالیٰ ضرور تیرے لئے اُن کے مقابل پر کافی ہوگا)۔ یہ بات بچے کی سُن کر میں حیران ہوگیا کہ یہ چھوٹا بچہ ہے بمشکل 9۔10سال کا تھا اس کو الہام ہوا ہے۔ پھر میں دفتر چلا گیا اور ایک رقعہ حضرت اقدسؑ کی خدمت میں لکھا کہ: ’’آپ کو میرا تمام حال معلوم ہے۔ میں نے اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں وقف کردیا ہواہے۔ میر ا ایک ہی لڑکا ہے اسے بھی آج میں وقف کرتا ہوں۔ اگر حضور اس کو اپنے حکم سے شاخ دینیات میں داخل کردیں گے تو میں کامیاب ہوگیا۔ میں ایک کام پسند نہیں کرو ں گا کہ میرے لڑکے کو وظیفہ دیا جائے۔ مَیں اپنے لڑکے کو صدقے کے مال سے پڑھانا نہیں چاہتا۔ جہاں سے میں کھائوں گا میرا لڑکا وہاں سے کھائے گا‘‘۔
حضرت مسیح موعود ؑ نے اس رقعہ پر یہ لکھ کر مولوی محمد علی صاحب کو روانہ کیا: ’’مَیں محمد حسن پر بڑا خوش ہوں اس نے مجھ کو لڑکا شاخ دینیات کے لئے دیا ہے۔ میرے حکم سے اس کو شاخ دینیات میں داخل کردو۔ دوسری بات سے مَیں محمد حسن پر اَور بھی خوش ہو ا جو شخص صدقہ کے مال سے پڑھانا چاہتا ہے وہ کامیاب نہیں ہوتا اس پر محمد حسن نے خوب سوچا ہے ‘‘۔
اگلے روز مولوی صاحب مجھے ناراض ہونے لگے کہ افسوس تم پر، میرا خیال تھا کہ رحمت علی کو B.A., M.A. کرایا جائے۔ کچھ مَیں مدد دوںگا۔ کچھ تم اس کی پڑھائی میں امداد کرو گے۔ مگر تم نے اس کو مُلاّ بنانا چاہا ہے۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا تھا کہ اپنے لڑکے شاخ دینیات کے لئے دو۔میرا ایک ہی لڑکاتھا سو میں نے دیدیا۔اس لڑکے کا اللہ حافظ ہے۔
اس طرح آپؓ نہ صرف خود وقف زندگی کی تحریک میں سب سے اوّلین لبیک کہنے والوں میں شامل تھے بلکہ آپ کے بیٹے کو بھی ابتدائی مبلغین میں شامل ہوکر بیرون ہند پچیس سال کے طویل عرصہ تک تبلیغ اسلام کرنے کا موقع ملا۔
حضرت بابا محمد حسن صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ مقدمہ دیوار کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعودؑ گورداسپور تشریف لائے ہوئے تھے۔ مَیں نے اپنی چادر دری کے اوپر بچھادی اور عرض کیا کہ حضورؑ یہاں تشریف فرما ہوں۔ پھر مَیں نے عرض کیا کہ حضور! مجھے کوئی خاص عمل کرنے کے لئے بتلائیں۔ فرمایا کہ ’’نماز پڑھا کرو‘‘۔
آپؓ مزید بیان فرماتے ہیں کہ قادیان میں رہا تو ہمیشہ میرا یہی طریقہ رہا کہ تین مہینے یا چھ مہینے کے بعد دو چادریں حضورؑ کی خدمت میں روانہ کرتا رہا۔ ایک چادر مصلّے کے لئے اور ایک چادر پلنگ کے لئے۔ مجھ کو حضرت مسیح موعود ؑ جواب میں لکھتے: ’’خداتعالیٰ تمہاری یہی خدمت قبول فرمائے ‘‘۔
حضرت اقدس بھی آپؓ سے خاص طور پر محبت کا اظہار فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک بار اپنا کوٹ بطور تبرک آپ کو عنایت فرمایا ۔ ایک دفعہ اپنا پس خوردہ عنایت فرمایا۔ اپنی کتاب ’حقیقۃالوحی‘ کی اوّلین جلد بھی آپ کو مرحمت فرمائی۔
حضرت بابا محمد حسن صاحبؓ کی ساری حیات مبارکہ درس و تدریس اور تبلیغ میں گزری۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 1934ء میں جب ’’تحریک سالکین ‘‘ شروع فرمائی تو اس فہرست میں آپ کا نام آٹھویں نمبر پر درج ہے۔
قیام پاکستان کے بعد حضرت بابا محمد حسن صاحبؓ نے فرقان فورس میں بھی شمولیت اختیار کی۔ پھر حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر چنیوٹ کو اپنا مسکن بنالیا اور وفات تک احمدیہ مسجد چنیوٹ میں مقیم رہے۔
20؍ جولائی 1950ء کو آپؓ نے وفات پائی۔ ابتدائی تدفین مقامی قبرستان ربوہ میں کی گئی۔ بعد میں بہشتی مقبرہ ربوہ میں منتقل کر دیا گیا۔
اللہ تعالیٰ اس پاک وجود پر اپنی بے شمار رحمتیں نازل فرمائے اور ہمیں بھی ان مخلصین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے عہد کے تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین