حضرت بابو شاہ دین صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25؍مئی 2009ء میں حضرت بابو شاہ دین صاحبؓ کا مختصر ذکرخیرشامل اشاعت ہے۔
حضرت بابو شاہ دین صاحبؓ ساہووال ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے اور سٹیشن ماسٹر تھے، اس ملازمت کے لیے آپ زیادہ تر ضلع جہلم اور راولپنڈی کے مختلف علاقوں میں متعین رہے۔ جب مردان میں ریلوے کا آغاز ہوا تو آپ اس کے سب سے پہلے سٹیشن ماسٹر مقرر ہوئے۔ اس علاقہ میں آپ کے نیک نمونہ اور دعوت الی اللہ کی بدولت متعدد لوگ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ بیعت سے پہلے آپ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کے مریدوں میں سے تھے۔ بیعت کے بعد حضورؑ کے جاں نثار صحابہ میں سے ثابت ہوئے۔ مہینوں رخصت لے کر حضرت اقدس کی خدمت میں قادیان حاضر ہوتے۔ حضور نے اپنی کتاب ’’انجام آتھم‘‘ میں درج 313 صحابہ میں آپ کا نام 208نمبر پر رقم فرمایا ہے۔
آخری عمر میں آپؓ بیمار ہوگئے اور قادیان حاضر ہوئے۔ حضرت اقدسؑ اُن دنوں لاہور تشریف لے گئے تھے لیکن آپؓ کی خبر گیری کا پورا خیال رکھا اور قادیان میں موجود حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب کو آپ کے علاج معالجہ کی تاکید فرمائی۔ چنانچہ ایک خط میں فرمایا: ’’اور میری دلی خواہش ہے کہ آپ تکلیف اٹھا کر ایک دفعہ اخویم بابو شاہ دین صاحب کو دیکھ لیا کریں اور مناسب تجویز کریں۔میں بھی ان کے لئے پانچ وقت دعا میں مشغول ہوں، وہ بڑے مخلص ہیں ان کی طرف ضرور پوری توجہ کریں‘‘۔ ایک اور مکتوب میں فرمایا:’’بابو شاہ دین صاحب کی تعہد اور خبر گیری سے آپ کو بہت ثواب ہوگا۔ میں بہت شرمندہ ہوں کہ ان کے ایسے نازک وقت میں قادیان سے سخت مجبوری کے ساتھ مجھے آنا پڑا اور جس خدمت کا ثواب حاصل کرنے کے لئے میں حریص تھا، وہ آپ کو ملا۔ امید کہ آپ ہر روز خبر لیں گے اور دعا بھی کرتے رہیں گے اور میں بھی دعا کرتا ہوں۔‘‘
اگرچہ علاج جاری تھا لیکن خدا تعالیٰ کی تقدیر پوری ہوئی اور یہی بیماری جان لیوا ثابت ہوئی اور آپؓ نے حضور علیہ السلام کی وفات سے ایک یوم قبل 25مئی 1908ء کو بعمر تقریباً 38سال قادیان میں ہی وفات پائی اور بوجہ موصی ہونے کے بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے۔