حضرت بھائی عبدالرحمن صاحبؓ قادیانی

یکم جنوری 1879ء کو سیالکوٹ کی تحصیل شکرگڑھ کے قصبہ کنجروڑ میں مہتہ گوراند تامل اور محترمہ پاربتی دیوی کے ہاں ایک بچہ نے جنم لیا جس کا نام ہریش چندر رکھا گیا۔ شدید ہندوآنہ ماحول میں پرورش ہوئی۔ 1894ء میں جب یہ بچہ چونیاں میں زیرتعلیم تھا تو سورج اور چاند کا گرہن دیکھ کر سکول کے مسلمان ہیڈماسٹر نے کہا کہ اب امام آخرالزمان کی تلاش کرنی چاہئے۔ آہستہ آہستہ یہ بچہ ہندو خیالات سے متنفر ہوتے ہوئے پروان چڑھنے لگا۔ جب ذرا بڑا ہوا اور حصول معاش کے لئے سیالکوٹ پہنچا تو ایک کتاب ’’نشان آسمانی‘‘ نے اس کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی اور حضرت مسیح موعودؑ سے متعارف ہوئے۔ پھر حضورؑ کی ایک اور کتاب ’’انوارالاسلام‘‘ پڑھی تو ستمبر 1895ء میں قادیان پہنچے۔ پہلے حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں عرض کیا۔ جب شام کو آپ حضورؑ کی مجلس میں حاضر ہوئے تو حضورؑ نے فرمایا کہ یہ لڑکا تو ابھی بچہ معلوم ہوتا ہے اور نابالغ نظر آتا ہے، ایسا نہ ہو کہ ہندو کوئی فتنہ کھڑا کردیں۔ اس پر نوجوان نے اپنے گزرے ایام کی داستان سنائی اور انشراح کا ذکر کیا تو حضورؑ نے کلمہ پڑھاکر انہیں اسلام قبول کروایا اور عبدالرحمن نام رکھا، نیز قیام و طعام کے علاوہ تعلیم و تربیت کا بھی انتظام فرمادیا۔ اپنے ساتھیوں میں آپ ’’بھائی جی‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئے اور پھر بھائی کا لفظ آپ کے نام کا حصہ بن گیا۔
جب حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب کو قادیان میں کچھ عرصہ ہوگیا تو آپؓ کے والد آپ کو تلاش کرتے کرتے قادیان پہنچ گئے اور بڑی لجاجت سے آپؓ کے سامنے والدہ اور بھائی بہنوں کی پریشانی کا ذکر کیا اور کہا کہ اُن کے ساتھ چلے چلو تو وہ دو ہفتے بعد خود چھوڑ جائیں گے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے پہلے تو والد کے ساتھ بھیجنے سے انکار کردیا لیکن پھر اجازت دیدی۔ حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحبؓ نے تجویز دی کہ بھائی عبدالرحیم صاحبؓ کو ساتھ بھیج دیا جائے۔ اس پر حضور علیہ السلام نے ایک جلال اور شوکت کے ساتھ فرمایا کہ ’’نہیں مولوی صاحب! ہمیں نام کے مسلمانوں کی ضرورت نہیں، ہمارا ہے تو آجائے گا، ورنہ کوڑا کرکٹ جمع کرنے سے کیا حاصل؟‘‘۔ چنانچہ آپؓ اپنے والد کے ہمراہ چلے گئے۔
راستہ میں تو والد صاحب کا رویہ آپؓ کے ساتھ نرم ہی رہا لیکن اپنے علاقہ میں پہنچتے ہی فضا یکسر بدل گئی۔ عزیزو اقارب زبانی طعن و تشنیع تک محدود نہ رہے بلکہ چھڑیوں اور لاٹھیوں کے استعمال تک بات جا پہنچی۔ کئی بار چھریوں اور کلہاڑیوں سے زخمی بھی کئے گئے۔ کئی رشتہ دار اکٹھے چھاتی پر بیٹھ جاتے۔ یہ صورتحال کئی ماہ تک جاری رہی۔ آخر لمبا عرصہ گزرنے کے ساتھ ساتھ والد نے آپؓ کو بھی اپنے ساتھ کام پر لگالیا۔ پھر والد کا تبالہ لدھر نزد بہلول پور ہوگیا لیکن آپ پر سختی میں کوئی کمی نہ آئی۔ ایک روز کسی ضرورت کے تحت آپ کو ایک خادم کے ہمراہ بھیجا گیا۔ آپؓ کو سانگلہ ہل سے ٹرین میں سوار ہونا تھا۔ آپؓ نے راستہ میں خادم کو واپس کردیا اور خود ٹکٹ لے کر عازم سیالکوٹ ہوئے اور وہاں سے قادیان پہنچے اور نو ماہ کی طویل جدائی کے بعد امان پائی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپؓ کو دیکھ کر فرمایا: ’’آپ آگئے، بہت اچھا ہوا۔ آپ کے والد صاحب نے وعدہ کا پاس نہ کیا اور آپ کو روک کر تکلیف میں ڈالا۔ ہمیں بہت فکر تھی مگر شکر ہے کہ آپ کو اللہ نے ثابت قدم رکھا اور کامیاب فرمایا۔ مومن قول کا پکا اور وفادار ہوتا ہے‘‘۔
اس کے بعد آپؓ کو اغوا کرنے کی چار پانچ بار کوشش کی گئی لیکن خدا تعالیٰ نے آپؓ کو ثابت قدم رکھا۔ پھر آپؓ نے اپنی والدہ کے نام ایک تفصیلی خط میں لکھا کہ اگر بالفرض آپؓ کو پکڑ کر ٹکڑے ٹکڑے بھی کردیا جائے تو بھی آپؓ کے جسم کے ہر ایک ٹکڑے سے صدائے حق ہی بلند ہوگی۔ یہ خط نتیجہ خیز ثابت ہوا اور پھر آپؓ کے خاندان نے بھی ان حالات سے سمجھوتہ کرلیا۔
1900 ء میں آپؓ تپ دق کے مرض میں مبتلا ہوگئے۔ ہر علاج بے اثر معلوم ہونے لگا۔ پھر حضرت مسیح موعودؑ نے خاص دعا شروع کی اور دوا بھی بتلائی تو مُردہ جسم میں زندگی کے آثار پیدا ہونے لگے۔ اسی دوران علالت کی خبریں سن کر والدہ قادیان آگئیں۔ وہ حضورؑ اور دیگر احباب و خواتین کے حسن سلوک سے بہت متأثر ہوئیں اور آخر حضورؑ کی اجازت سے اپنے بیٹے کو اپنے ہمراہ لے گئیں، کسی کے اعتراض کی پرواہ کئے بغیر اپنے پاس رکھا اور نمازیں پڑھنے کی کھلی اجازت دیدی۔ ڈیڑھ ماہ بعد آپؓ والدہ سے اجازت لے کر قادیان آگئے۔
آپؓ کی پہلی شادی ہندوآنہ رسوم کے مطابق ہوئی تھی۔ اس بیوی سے ایک بچی ہوئی جو زندہ نہ رہی۔ قادیان آپؓ کی دوسری شادی حضرت زینب بی بی صاحبہ بنت حضرت شیخ محمد علی صاحبؓ آف ڈنگہ ضلع گجرات کے ساتھ 1902ء میں ہوئی۔
حضرت بھائی جی 1895ء سے قادیان میں مقیم تھے۔ کبھی ملازمت اور کبھی دوکان ذریعہ معاش کیا۔ اخبار ’’الحکم‘‘ میں بھی کام کیا۔ 1929ء میں تحریک شدھی کے سلسلہ میں ملکانہ گئے اور ساری پونجی وہاں قربان کردی۔ بعد میں خدا تعالیٰ نے ہر لحاظ سے آپؓ کو بہت نوازا اور ایک مثالی لمبی زندگی عطا فرمائی۔
1960ء میں جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے لئے پاکستان آئے۔ جلسہ سالانہ کے بعد لاہور سے کراچی جاتے ہوئے 6؍جنوری 1961ء کو راستہ میں انتقال فرمایا۔ نماز جنازہ ربوہ اور لاہور میں اداکرنے کے بعد قادیان بھجوادیا گیا جہاں بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی۔ 313 خاص صحابہؓ میں آپؓ کا نمبر 101 تھا اور وصیت نمبر 149 تھا۔ آپؓ کو حضرت مسیح موعودؑ کی ابتدائی تحریک وقف پر لبیک کہنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ حضورؑ کے دَور میں پہرہ دینے،بٹالہ سے ڈاک لانے اور لے جانے، نیز لنگر کے لئے آٹا وغیرہ مہیا کرنے کی ذمہ داری بھی آپؓ کے سپرد رہی۔ جلسہ اعظم مذاہب سے قبل آپؓ ہی اشتہارات لے کر قادیان سے لاہور گئے۔ حضورؑ نے وصال سے قبل آپؓ کو یاد فرمایا۔ آخری زیارت کروانے کی ذمہ داری بھی آپؓ نے سرانجام دی۔ مختلف بابرکت مجالس کی رپورٹس لکھیں اور بے شمار علمی نوٹس تحریر فرمائے۔ ہر مالی خدمت میں نمایاں حصہ لیا۔ حضرت اقدسؑ کے عاشق صادق تھے۔
1924ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی ہمرکابی میں سفر انگلستان کی سعادت ملی۔ صدر انجمن احمدیہ قادیان کے ممبر بھی رہے اور کئی دفعہ امیر مقامی اور قائم مقام ناظر اعلیٰ بنے۔ خلافت سے وابستگی کی ہمیشہ تلقین فرماتے اور حضورؓ کی اجازت کے بغیر قادیان سے کبھی باہر نہ جاتے۔ ہر وقت مستعد اور بشاش رہتے۔ محبت سے مہمان نوازی کرتے۔ دارالمسیح کی تفصیلی معلومات رکھتے تھے۔ ہر خدمت انتہائی ذمہ داری سے نبھاتے۔ خطرات کے وقت مستعد ہوکر پہرہ دیتے۔
حضرت بھائی عبدالرحمن صاحبؓ قادیانی کے بارہ میں مکرم محمد اعظم اکسیر صاحب کا یہ مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19؍نومبر 2001ء کی زینت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں