حضرت حافظ احمد دین صاحبؓ ڈنگوی

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19؍نومبر 2011ء میں حضرت حافظ احمد دین صاحبؓ ڈنگوی ولد حکیم پیر بخش صاحب کا تذکرہ ’’تاریخ احمدیت‘‘ سے منقول ہے۔
حضرت حافظ احمد دین صاحب قریباً 1869ء میں ڈنگہ میں پیدا ہوئے۔ بیعت کی سعادت 1898ء میں حاصل ہوئی۔ اپنی بیعت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت حافظ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ جس وقت حضرت مسیح موعودؑ نے دعویٰ فرمایا تو میرے بعد میرے استاد کے دل میں بھی خیال پیدا ہوا کہ کیوں نہ خود قادیان جا کر دیکھا جائے۔ اس وقت مشہور تھا کہ مرزا صاحب کے پاس کو ئی جادوہے اور جو کوئی بھی قادیان جاتا ہے اُسے جادو والی روٹی کھلا دی جاتی ہے اور پھر وہ بغیر بیعت کئے واپس نہیں آتا۔ اس خیال کی بِنا پر مَیں نے اور میرے استاد نے تین چار دن کی خوراک اپنے ساتھ لے لی تا کہ قادیان کی روٹی نہ ہی کھائیں ۔ جب ہم قادیان کی طرف روانہ ہوئے تو تمام راستے میں یہی سوچتے آئے کہ حضرت مسیح موعود سے کیا کیا سوال کریں گے؟ جس وقت ہم قادیان پہنچے اس وقت حضرت مسیح موعودؑ مسجد میں تشریف رکھتے تھے اور تقریر فرما رہے تھے۔ ہم بھی خاموشی سے مجلس میں جا کر بیٹھ گئے۔ جو جو سوال دل میں سوچ کر گئے تھے۔ اُنہی سوالوں کا جواب حضورؑ دے رہے تھے۔ ہم حیرت سے حضورؑ کا چہرہ دیکھنے لگے اور اسی وقت بیعت سے مشرف ہو گئے۔
حضرت حافظ صاحب شروع سے ہی جماعت احمدیہ ڈنگہ کے امیر اور سیکرٹری مال چلے آتے تھے اور وفات تک ان خدمات پر فائز رہے۔ نہایت رقیق القلب، بہت نیک، پابند صوم وصلوٰۃ اور تہجد گزار تھے۔ آپ کا گھر گویا جماعت ڈنگہ کا مرکز تھا جہاں عیدین، جمعہ اور پانچوں وقت کی نمازیں ادا ہوتی تھیں ۔ بہت سے احمدی بچوں اور بچیوں نے آپ سے قرآن مجید پڑھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت نیک فطرت عطا کی تھی۔ علم طب میں بھی ماہر تھے گو ان کا روزگار اس علم پر نہ تھا۔ حاجتمندوں کو دوا مفت دیا کرتے تھے۔ حضرت ڈاکٹر بھائی محمود احمد صاحبؓ مہاجر قادیان (بیعت 1903ء) آپ کے حقیقی بھائی تھے۔
حضرت حافظ صاحبؓ کی وفات 19نومبر 1954 ء کو 85 سال کی عمر میں ڈنگہ میں ہوئی۔ جنازہ ربوہ لایا گیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ صحابہ میں تدفین عمل میں آئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں