حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍اپریل 1998ء میں حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ کے بارے میں مکرم مرزا خلیل احمد قمر صاحب کا ایک تحقیقی مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ رنمل ضلع گجرات کے رہنے والے تھے۔ آپ 1883ء یا 1884ء میں پیدا ہوئے۔ آپؓ چار بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ آپؓ کے والد 35 سال کی عمر میں وفات پاگئے جبکہ آپؓ کی عمر صرف5 سال سے کم تھی۔ آپ کی آنکھیں دکھتی تھیں۔ والد کی وفات کے بعد کسی نے علاج کی طرف توجہ نہ دی جس کی وجہ سے آنکھیں مزید خراب ہوگئیں اور بینائی بہت کم رہ گئی چنانچہ آپؓ سکول میں تعلیم بھی حاصل نہ کرسکے تاہم اپنے رشتہ کے ماموں حضرت حافظ غلام رسول صاحبؓ وزیر آبادی سے 15 سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کرلیا اور پھر قادیان آگئے۔ قادیان آنے سے قبل 1899ء میں آپؓ بیعت کی سعادت حاصل کرچکے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے ارشاد پر آپؓ نے حضرت قاضی امیر حسین صاحبؓ سے قریباً پانچ سال تک دینی اور طب کی تعلیم حاصل کی اور پھر حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحبؓ کے درس میں شامل ہوئے اور حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ کے ہم سبق رہے۔ اس دوران حضرت نواب محمد علی خانصاحبؓ کے بچوں کی تعلیم و تربیت کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔
حضرت حافظ صاحبؓ نہایت ذہین تھے۔ آپؓ تلاوت کرتے وقت پچھلی آیات بتا سکتے تھے، الگ الگ آیات بھی بتا سکتے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ قرآن کریم آپؓ کے سامنے کُھلا پڑا ہے۔ کسی مضمون کے متعلق دریافت کرنے پر متعدد آیات بتادیا کرتے تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے آپکی وفات پر فرمایا کہ حافظ صاحب میں یہ بڑا کمال تھا کہ انہیں جب کوئی مضمون بتادیا جاتا تھا وہ اس مضمون کی آیتیں قرآن کریم سے فوراً نکال دیا کرتے تھے۔ مگر اُن کی وفات کے بعد مجھے اب تک کوئی ایسا آدمی نہیں ملا ۔
ایک اور موقعہ پر حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا ’’ایک دفعہ لاہور میں مجھے اچانک تقریر کرنی پڑی۔ حافظ روشن علی صاحب جو آیات کا حوالہ نکالنے میں بہت مہارت رکھتے تھے ان کو میں نے پیچھے بٹھالیا اور مضمون بیان کرنا شروع کردیا جب ضرورت پڑتی ان سے حوالہ دریافت کرلیتا‘‘۔
1924ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے سفر لندن میں بھی حضرت حافظ صاحبؓ ہمراہ تھے۔ اس دوران حضورؓ کو حضرت مسیح موعودؑ کی ایک عربی کتاب کی ضرورت پڑی اور آپؓ نے حضرت حافظ صاحبؓ سے اس کتاب کے نہ ہونے کا افسوس کیا تو حضرت حافظ صاحبؓ نے وہ کتاب زبانی سنانی شروع کردی۔
حضرت مسیح موعودؑ نے بھی ایک موقعہ پر حضرت حافظ صاحبؓ سے ایک حوالہ دریافت فرمایا اور آپؓ نے فوراً مطلوبہ آیت پڑھ دی۔ آپؓ کے متعلق حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ فرماتے ہیں ’’میں نے آپ سا ذہین اور قادرالکلام کوئی نہیں دیکھا‘‘۔
حضرت حافظ صاحبؓ اپنے زمانہ کے بہت بڑے عالم تھے اور آپؓ نے قرآن و حدیث کے علاوہ بھی ہر ایک دینی علم میں تبحر حاصل کیا ہوا تھا۔ آپؓ کو اردو، عربی اور پنجابی میں ہزاروں تقاریر کرنے کی توفیق ملی۔ غیراحمدی مسلمانوں، عیسائی پادریوں اور آریوں سے بیسیوں مباحثات کئے اور کئی مناظروں میں اہل سنت والجماعت کی طرف سے پیش ہوئے۔ جلسہ سالانہ قادیان میں چودہ سال تک تقاریر کی توفیق پائی۔
حضرت حافظ صاحبؓ صوفیاء کے مشہور خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ 24ء میں ویمبلے کانفرنس میں آپؓ نے تصوّف کے موضوع پر شاندار تقریر فرمائی۔ آپؓ نے بیسیوں دفعہ قرآن کریم کا درس دیا۔ ہر رمضان میں شدید گرمیوں میں بھی روزہ رکھ کر ایک پارہ کا روزانہ درس دیا کرتے تھے۔ آپؓ علم تجوید کے ماہر اور خوش الحان قاری تھے۔ آپؓ کو یورپ کے علاوہ مصر، شام اور بیت المقدس بھی جانے کا موقعہ ملا۔ فقہ میں بھی آپؓ کا مقام بہت بلند تھا اور آپؓ کی ایک مشہور تالیف ’’فقہ احمدیہ‘‘ ہے۔ آپؓ کے شاگردوں میں حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب، حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب اور حضرت مولانا غلام احمد صاحب بدوملہوی کے نام آتے ہیں۔
حضرت حافظ صاحبؓ نے انصاراللہ کی ابتدائی تنظیم میں شاندار خدمات انجام دیں۔ آپؓ محکمہ قضاء کے انچارج بھی رہے۔ دارالبیعت لدھیانہ کی از سر نو مرمّت ہوئی تو آپؓ نے اس کا افتتاح فرمایا۔ جولائی 25ء میں آل مسلم پارٹیز کانفرنس امرتسر میں شرکت کی اور سبجیکٹ ممبر منتخب ہوئے۔ آپؓ نے ساری زندگی جماعت کی مختلف حیثیتوں سے بہت خدمت سرانجام دی اور 23؍جون 1929ء کو قریباً 45 سال کی عمر میں وفات پائی۔ نماز جنازہ امیر مقامی حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ نے پڑھائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے جو اُن دنوں ایک سفر پر قادیان سے باہر تھے اپنے ایک تفصیلی تعزیتی تار میں حضرت حافظ صاحبؓ کی خدمات اور صفات کا ذکر فرمایا۔