حضرت حافظ عبدالعزیز صاحب حلالپوری کا قبول احمدیت
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 22؍جولائی 2002ء میں حضرت حافظ عبدالعزیز صاحب حلالپوری کی قبول احمدیت کا واقعہ اُنہی کی زبانی (مرسلہ مکرم مولانا دوست محمد شاہد صاحب) شائع ہوا ہے۔
حضرت حافظ صاحب بیان فرماتے ہیں کہ مَیں حلالپور تحصیل بھلوال کا رہنے والا ہوں۔ قوم نونؔ ہے۔ موصی ہوں اور وصیت میں 26؍کنال اراضی اپنی زندگی میں انجمن کو دے چکا ہوں۔
دوالمیال کے باشندے میرے والد حافظ غلام محمد صاحب کو ولی اللہ سمجھتے تھے اور اکثر مرید بھی تھے۔ ایک بار مَیں اُن کے ساتھ وہاں گیا۔ وہاں ایک حافظ صاحب تھے جو احمدی ہوچکے تھے۔ ہم اُن کے پاس اکثر جاتے اور وہ ہمیں دعوت الی اللہ کرتے جس کا میرے دل پر گہرا اثر تھا۔ اُن سے مَیں نے دو پارے بھی حفظ کئے۔ لیکن پھر چونکہ مَیں بے نماز تھا اس لئے برائیوں میں ملوث ہوگیا اور نشہ بھی شروع کردیا۔ بیعت اس لئے نہیں کی کہ میری وجہ سے احمدیت کیوں بدنام ہو۔ ایک بار علاج کیلئے قادیان گیا اور حضرت مسیح موعودؑ کو دیکھا بھی لیکن بیعت نہ کی۔
ایک بار مجھے حضرت حافظ خدابخش صاحبؓ سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ انہیں دعوت الی اللہ کا بہت جوش تھا۔ انہوں نے پوچھا کہ دل سے احمدی ہو تو بیعت کیوں نہیں کرتے؟۔ مَیں نے کہا میرے افعال بُرے ہیں۔ … پھر اُن کے سمجھانے پر کہا کہ قادیان جانے کی استطاعت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ایک کارڈ لاؤ جس کے ذریعہ میری بیعت کروائی۔
اُن دنوں طاعون کا زور تھا۔ مَیں نے اعلان کردیا کہ اگر مَیں مر جاؤں تو جنازہ احمدی پڑھیں۔ جب بیعت کی قبولیت کا خط آیا تو مَیں نے نمازکی پابندی اختیار کرلی اور افعال شنیعہ سے تائب ہوگیا۔ میرا ایک بیٹا ہے اور میرے رشتہ داروں میں سے صرف ایک بھتیجا احمدی ہے۔ (آپ کے بیٹے مکرم عبدالسمیع نون صاحب ایڈووکیٹ سرگودھا ہیں)۔