حضرت حافظ عبد العزیز صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28اپریل 2005ء میں مکرم ریاض احمد چودھری صاحب اپنے والد حضرت حافظ عبدالعزیز صاحبؓ کی زندگی کے چیدہ چیدہ واقعات کا ذکر کرتے ہیں۔
حضرت حافظ عبدالعزیز صاحبؓ قریباً 1873ء میں سیالکوٹ چھاؤنی کے محترم چودھری نبی بخش صاحب کے ہاں پیدا ہوئے جو بہت عابد زاہد اور مہمان نواز تھے۔ انہوں نے بچپن میں ہی آپ کو قرآن مجید حفظ کروادیا ۔ مڈل پاس کرانے کے بعد آپ کو ڈاکٹری کی تعلیم کے لئے بھجوایا گیا لیکن رقت قلب کی وجہ سے یہ شعبہ آپ برداشت نہ کر سکے اور واپس آکر مزید تعلیم حاصل کی۔ پھر سنگر سیونگ مشین کمپنی کی ملازمت اختیار کر لی جو 39 سال جاری رہی۔ آپ کی ایمانداری اور محنت سے متأثر ہوکر کمپنی نے آپؓ کی پنشن مقرر کر دی حالانکہ پنشن دینا کمپنی مذکور کے قواعد میں شامل نہیں تھا۔
نوجوانی میں ہی آپ مذہبی کتب کا مطالعہ کرتے اور علماء کی صحبت میں بیٹھتے۔ 1896ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی سعادت حاصل کی اور پھر استقامت سے ایمان پر قائم رہے۔ قرآن مجید سے آپؓ کو پیدائشی عشق تھا۔ قبولِ احمدیت سے قبل آپؓ تین میل دُور ایک مسجد میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحبؓ کا درس سننے جاتے تھے۔ بڑھاپے میں یہ عشق مجذوبی کی کیفیت اختیار کر چکا تھا۔ آپ اکثر اپنے خطبات یا تقریروں کے دوران قرآنی آیات کی تلاوت پر آبدیدہ ہوجاتے تھے۔ حضرت رسول کریمؐ سے عشق کا یہ عالم تھا ایک دفعہ ایک شخص نے آنحضورﷺ کی شان میں نامناسب الفاظ کہے تو آپ کو اتنا رنج ہوا اسی وقت گفتگو کا سلسلہ بند کر دیا اور بستر علالت پر پڑگئے اور دو دن اسی صدمہ کے نتیجہ میں سخت بیمار رہے۔
سیالکوٹ چھاؤنی کی جماعت میں مختلف حیثیتوں میں خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ آپؓ کی دعوت الی اللہ کے نتیجہ میں بہت سی سعید روحیں احمدیت میں داخل ہوئیں۔ 1914ء میں غیر مبائعین کے فتنہ کے خلاف آپؓ نے فرداً فرداً احباب جماعت کو سمجھایا اور خلافت سے وابستہ کیا۔ آپؓ بیان کرتے ہیں کہ خلافت اولیٰ کے زمانہ میں ہی آپؓ حضرت خلیفہ اولؓ کے تقاضائے عمر پر غور کر کے سوچا کرتے تھے کہ ان کے بعد جماعت کو کون سنبھالے گا۔ ایک روز حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ کی ایک تقریر سنی جس میں حضورؓ نے سورۃ فاتحہ کی مختصر تفسیر بیان فرمائی تو اُسی روز سے آپؓ کا دن مطمئن ہوگیا کہ حضرت خلیفہ اولؓ کے بعد خلافت کا اہل اللہ تعالیٰ نے پیدا کر رکھا ہے۔
حضرت خلیفہ اولؓ سے آپؓ کے گہرے تعلقات تھے۔ حضورؓ نے آپؓ کی تین بیویوں کی وفات کے بعد جب چوتھا نکاح پڑھایا تو خاص طور پر اس قسم کے الفاظ فرمائے کہ اللہ تعالیٰ اس نکاح سے بھی اولاد دے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس بیوی سے آپؓ کو سات لڑکے اور تین لڑکیاں عطا فرمائیں جبکہ ایک لڑکا اور ایک لڑکی پہلی بیویوں سے تھے۔ محترم چوہدری شبیر احمد صاحب وکیل المال اول تحریک جدید بھی آپؓ کے فرزند ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آپؓ کے مال میں اتنی برکت دی کہ آپ انیس مکانات ورثہ میں چھوڑ گئے۔ 1928ء میں جب آپؓ نے اپنا مکان تعمیر کروایا تو جماعت کی مسجد کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے دو کمرے نماز باجماعت اور جمعہ کی نیت سے بنوائے۔
ایک مرتبہ آپؓ کو بخار اور کھانسی کی شکایت ہوگئی۔ معالج نے ٹی بی کے شبہ کا اظہار کیا تو آپؓ نے بڑے ہی یقین اور زوردار الفاظ میں کہا کہ ڈاکٹر صاحب مجھے ٹی بی ہرگز نہیں ہوسکتی، میرے سینے میں قرآن مجید ہے۔ چنانچہ معائنہ کے بعد ڈاکٹر کا خیال غلط ثابت ہوا۔ نومبر 1951ء میں 78 سال کی عمر میں آپؓ کا وصال ہوا۔