حضرت حسان بن ثابتؓ
حضرت حسان کو ادب کی اصطلاح میں مخضرمی شاعر کہتے ہیں۔ یعنی ایسا شاعر جس نے جاہلیت کے زمانہ میں اور پھر اسلام کی آمد کے بعد بھی عمدہ اشعار کہے۔ آپ کا لقب ہے
’’اَشْعَرُ شُعَرَاء الْمُخَضْرَمِیْن‘‘
(یعنی مخضرمی شعراء میں سے سب سے بڑا شاعر)۔ آپ مدینہ میں آباد بنونجار کے قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتے تھے۔ نسب نامہ یوں تھا: حسان بن ثابت بن منذر بن حرام بن عمرو۔ والدہ کا نام فریعہ تھا۔ جو کنیت مشہور ہوئی وہ ابوولید ہے۔ آپ کے بارہ میں مکرم ظہور الٰہی توقیر صاحب کا ایک مضمون ماہنامہ ’’خالد‘‘ نومبر 2001ء میں شامل اشاعت ہے۔
آپ کی عمر ابھی سات آٹھ برس تھی کہ ایک یہودی نے اہل مدینہ کو مخاطب کرکے ایک ستارہ کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ اس ستارہ کے طلوع ہونے کا مطلب ہے کہ احمد (ﷺ) پیدا ہوگئے ہیں۔ حضرت حسان نے بہت لمبی عمر پائی۔ کئی پشتوں سے آپ کے آباء و اجداد بھی لمبی عمر پاتے رہے تھے۔ حضرت حسانؓ کی وفات معاویہؓ کے زمانہ میں 54ھ میں قریباً ایک سو بیس برس کی عمر میں ہوئی۔ آخری عمر تک آپ کے حواس اور عقل و فکر درست تھے لیکن جسم کی کمزوری کے علاوہ بصارت سے بھی محروم ہوگئے تھے۔
حضرت حسان وہ خوش نصیب شاعر ہیں جنہیں شاعر النبیﷺ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ آنحضورﷺ نے آپؓ سے فرمایا: اے حسان! تُو قریش کی ہجو کر، جبریل تیرے ساتھ ہوگا۔ اے اللہ! تُو حسان کی روح القدس کے ذریعہ مدد کر۔
نبی کریمﷺ مسجد میں آپؓ کے لئے منبر رکھوادیتے اور فرماتے ’’حسان! ان کو میری طرف سے جواب دو‘‘ اور دعا کرتے کہ اے اللہ! روح القدس سے اس کی تائید کر۔
جب شروع میں کفار کی ہجو کا جواب دینے کا فیصلہ ہوا تو آنحضورﷺ نے حضرت حسانؓ سے پوچھا کہ تم قریش کی ہجو کس طرح کروگے، مَیں بھی تو اُن میں سے ہوں۔ آپؓ نے فرمایا کہ حضور! مَیں آپؐ کو ان سے یوں الگ کرلوں گا جیسے گندھے ہوئے آٹے سے بال۔
حضرت حسانؓ کے شعر اتنے مؤثر ہوتے تھے کہ آپؓ کا ایک ہم عصر شاعر حُطیئہ کہتا ہے: ’’لوگو! انصار تک میری یہ بات پہنچادو کہ اُن کا شاعر عرب کا بہترین شاعر ہے‘‘۔
آپؓ نبی کریمﷺ کے ہم زلف تھے۔ حضرت ماریہ قبطیہؓ کی بہن سیرین آپؓ کے عقد میں آئیں جن کے بطن سے حضرت عبدالرحمن پیدا ہوئے۔
حضرت حسانؓ سے واقعہ افک کے موقع پر ایک لغزش بھی ہوئی۔ اس واقعہ کے بعد ایک بار حضرت عائشہؓ کے سامنے دو عورتوں نے حضرت حسانؓ کو برا بھلا کہا تو انہوں نے فرمایا کہ مَیں امید رکھتی ہوں کہ خدا حسانؓ کو جنت میں جگہ دے گا کیونکہ آپؓ نے اپنی زبان کے ذریعہ نبی کریمﷺ کا دفاع کیا اور یہ شعر بھی تو کہا کہ ’’میرا باپ اور دادا اور میری عزت محمدؐ کی عزت کے سامنے ڈھال بن جائیں گے‘‘۔
حضرت حسانؓ دل کے بہت کمزور تھے اور اسی وجہ سے کسی غزوہ میں شامل نہیں ہوسکے۔ جنگ احزاب کے موقع پر جب مستورات مدینہ کے ایک محفوظ مقام پر اکٹھی کردی گئیں تو ایک یہودی کو وہاں دیکھا گیا۔ آنحضورﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہؓ نے آپؓ سے کہا کہ اس یہودی کو مار دو۔ آپؓ نے انہیں جواب دیا کہ آپ کو معلوم ہے مَیں ایسا کام نہیں کرسکتا۔ پھر حضرت صفیہؓ نے چوب سے اس یہودی کو مار ڈالا اور حضرت حسانؓ سے فرمایا کہ اس کی زرّہ اتار لاؤ۔ آپؓ نے کہا: مجھے اس کی ضرورت ہی نہیں۔
بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر انصار نے آنحضورﷺ کی جان و مال سے مدد کی تو حضرت حسانؓ نے شعر کے ذریعہ بھی بہت عظیم خدمت سرانجام دی۔ آپؓ کے دیوان میں کئی مرثیے موجود ہیں۔ ایسے ہی ایک مرثیہ میں ایک شعر ہے:
’’اے میرے آقا! تُو میری آنکھ کی پتلی تھا۔ تُو فوت ہوگیا تو میری آنکھیں جاتی رہیں۔ اب تیرے بغیر جو چاہے مرے، مجھے تو تیرا ہی غم تھا‘‘۔
اس شعر کو ایک بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٹہلتے ہوئے گنگناتے جاتے تھے اور حضورؑ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ کسی نے گھبراکر پوچھا کہ حضورؑ کو کیا صدمہ پہنچا ہے؟۔ حضورؑ نے یہ شعر پڑھ کر فرمایا: میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہورہی تھی کہ کاش یہ شعر میری زبان سے نکلتا!‘‘۔