حضرت حسن بصری ؒ
حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ : ’’حسن بصریؒ کا ذکر ہے کہ کسی نے ان سے پوچھا کہ تم کو غم کب ہوتا ہے تو اس نے جواب دیا کہ جب کوئی غم نہ ہو‘‘۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7؍مارچ 2005ء میں مکرم میر غلام احمد نسیم صاحب کا ایک مضمون حضرت حسن بصریؒ سے متعلق شائع ہوا ہے۔
ابو سعید بن ابی الحسن یاسر البصری مدینۃ النبیؐ میں 21ھ بمطابق 642ء میں پیدا ہوئے۔ ان کی وفات 110ھ بمطابق 728ء بمقام بصرہ عراق میں ہوئی۔ آپ نے 86سال کی عمر پائی۔ آپؒ اُن صوفیاء میں سے ہیں جنہوں نے زاہدانہ زندگی گزارنے پر زور دیا۔ جب آپؒ نے ہوش سنبھالی تو حضرت عثمانؓ کے دَور میں اختلافات در آنے کا آغاز ہوگیا تھا۔ آپ ایک آزاد کردہ غلام کے گھر مدینہ میں پیدا ہوئے لیکن پرورش وادی القریٰ میں ہوئی۔ اموی خلافت کے ابتدائی دَور میں بصرہ منتقل ہوگئے اور وہیں پر مستقل سکونت اختیار کر لی۔ اسلامی فوج میں شامل ہوئے اور ایران کے ساتھ جنگوں میں حصہ لیا اور کچھ دیر خراسان کے گورنر کے سیکرٹری بھی رہے۔ اُس دور کی معاشی اور معاشرتی تبدیلیوں نے مادہ پرستی اور اندرونی اختلافات کو جنم دینا شروع کیا تو حسنؒ جیسے زاہدانہ طبیعت رکھنے والے کو یہ تبدیلی ناگوار گزری اور انہوں نے اس کو اعلانیہ طور پر ناپسند کیا۔ خصوصاً اموی گورنر حجاج کے طرز عمل پر ناپسندیدگی کا اظہار اعلانیہ طور پر کیا۔ لیکن حکومت کے خلاف کسی تحریک میں حصہ لینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ حکومت کی تلوار اُنکے الفاظ سے زیادہ طاقتور ہے۔ دوسروں کو بھی صبر اور توبہ و استغفار کی تلقین کرتے کہ خدا تعالیٰ دعاؤں سے تبدیلی لائے گا نہ کہ جلدی میں بدامنی پیدا کرنے سے کیونکہ اس طرح خانہ جنگی کا خطرہ ہے۔ وہ کہتے کہ ایک خارجی جو برائی کو زبردستی اچھائی میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ برا کرتا ہے۔
حضرت حسن اگرچہ اسلامی علوم تفسیر، حدیث اور فقہ کے مانے ہوئے عالم اور ماہر تھے اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ان علوم پر تقاریر بھی کیں اور رسالے بھی لکھے لیکن ان کی شہرت ان کی زاہدانہ زندگی گزارنے اور اس کی دوسروں کو تلقین کرنے میں گزری۔ وہ ہمیشہ مادہ پرستی اور دنیاوی جاہ و جلال کے خلاف جہاد میں مصروف رہے۔ ان کی نصائح میں دنیاوی زندگی کے عارضی ہونے اور ابدی اخروی زندگی کا ذکر ملتا ہے۔ تقویٰ اور خداتعالیٰ کے خوف کا ہمیشہ پرچار کرتے نظر آتے۔ اخلاق کی درستگی پر بہت زور دیتے۔ ایمان کی مضبوطی اور پختگی ہی ان کے نزدیک ابدی خوشی اور مسرت کا باعث تھا۔ جو لوگ دنیوی فوائد کے حصول میں لگے رہتے ہیں انہیں کبھی مسرت نصیب نہیں ہوتی۔ معتزلہ اور اشاعرہ دونوں ہی حسن بصری کی عزت کرتے تھے۔
حسن کو ابتدائی صوفیاء میں شمار کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب وہ فوت ہوئے تو بصرہ کے سارے لوگ ان کے جنازہ پر چلے گئے حتیٰ کہ اس روز مغرب کی نماز بروقت بصرہ کی مساجد میں ادا نہ ہو سکی۔
684ء تا 704ء حسن بصری کی نصائح اور وعظ کا عروج کا زمانہ رہا۔اُن کے چند اقوال یوں ہیں:
= سچے مسلمان کو نہ صرف یہ کہ گناہ سے پرہیز ہی نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس بات کا فکر ہونا چاہئے کہ موت یقینی ہے اور باوجود اچھے اعمال کے نجات یقینی امر نہیں بلکہ خدا کے فضل پر موقوف ہے۔
= دنیا دھوکہ باز ہے کیونکہ یہ اس سانپ کی طرح ہے جو چھونے سے نرم محسوس ہوتا ہے لیکن وہ زہر قاتل ہے۔
= اپنا ہر وقت محاسبہ کرتے رہنا ہی اعمال صالح کا باعث بن سکتا ہے۔
= ایک مرتبہ عمر بن عبد العزیز نے کسی معاملہ میں مشورہ طلب کیا تو فرمایا : ’’اگر خدا آپ کے ساتھ ہے تو خوف کس بات کا اور اگر خدا آپ کے ساتھ نہیں تو پھر امید کس بات کی۔‘‘
حسن بصری چونکہ حضرت علیؓ کے زیر تربیت رہے تھے اس لئے صوفیا تصوف کی کڑی حضرت علیؓ سے ملاتے ہیں۔ حسن بصری کے شاگردوں میں حبیب العجمی مشہور ہیں۔ ان کو عجمی اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ عربی کا تلفظ اچھی طرح ادا نہیں کر سکتے تھے۔ رابعہؒ بصری بھی اُن ہی کی شاگرد تھیں۔