حضرت حکیم اللہ بخش صاحبؓ
حضرت حکیم اللہ بخش صاحبؓ کی رہائش قادیان کے قریب ہی کے ایک گاؤں میں تھی اور آپؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بعثت سے قبل بھی حضورؑ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا کرتے تھے۔
حضرت حکیم صاحب کو دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا اور اسی شوق کی خاطر مختلف دیہات میں جایا کرتے تھے۔ پنجابی زبان کے شاعر تھے اور اس خداداد وصف کو بھی دعوت الی اللہ کے لئے استعمال کرتے تھے۔
حضرت حکیم اللہ بخش صاحبؓ ایک وقت اپنا گاؤں چھوڑ کر قادیان میں ہی آبسے اور کچھ عرصہ حضرت اماں جانؓ کی ڈیوڑھی میں دربان کی خدمت کی سعادت بھی حاصل کی۔ محلہ دارالبرکات میں اپنا مکان بھی بنانے کی توفیق پائی۔ جب آپؓ نے حضرت مصلح موعودؓ سے مکان کی بنیاد رکھنے کی درخواست کی تو حضورؓ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اس شرط پر آؤں گا کہ آپ مجھے وہ کہانی سنائیں جو حضرت مسیح موعودؑ نے آپ کو سنائی تھی۔ … چنانچہ حضورؓ تشریف لائے اور میدان میں پڑی ہوئی اینٹوں پر بیٹھ گئے۔ حضرت حکیم صاحبؓ نے حسبِ فرمائش یہ کہانی سنائی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی شہر میں ایک نیک انسان رہتا تھا جو معالج بھی تھا اور اپنی خوبیوں کی وجہ سے ہردلعزیز تھا۔ لیکن اُس کا ایک پڑوسی اُس سے حسد کرنے لگا۔ نیک آدمی نے اپنے پڑوسی کو حسد کی تکلیف سے بچانے کے لئے نقلِ مکانی کرلی اور نئی جگہ جاکر وہاں بھی ویسا ہی مقبول ہوگیا۔ جب اُس کی شہرت اُس حاسد تک پہنچی تو حاسد نے اپنی بیوی سے مشورہ کیا جو اُسی کی طرح کم ظرف اور حاسد تھی۔ دونوں نے مشورہ کرکے نیک شخص کو ٹھکانے لگانے کا پروگرام بنایا اور پھر وہ حاسد اُس نیک شخص کے پاس گیا اور بہت اچھی باتیں کرکے اُسے باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ بھی اس کا ہمدرد ہے۔ نیک شخص نے اپنی سادگی اور نیکی کی وجہ سے اُس کی خوب خاطر مدارت کی اور تحفے تحائف دیئے اور اپنے محلات اور باغات کی سیر کروائی۔ ایک دن حاسد نے اُس سے کہا کہ آپ نے مجھے ہر جگہ کی سیر کروادی ہے سوائے باغ کے ایک کونے کی۔ نیک شخص کہنے لگا کہ مجھے جس شخص نے یہ باغ تحفہ میں دیا تھا اُس نے وصیت کی تھی کہ اس کونے میں ایک اندھا کنواں ہے جس میں بھوت رہتے ہیں اس لئے اس طرف کبھی نہ جانا۔ حاسد اصرار کرنے لگا کہ میں تو ضرور وہ کنواں دیکھ کر ہی جاؤں گا۔ چنانچہ اُس کے پیہم اصرار اور جذبہ مہمان نوازی سے مجبور ہوکر نیک آدمی اپنے مہمان کو ادھر لے گیا۔ حاسد نے کنوئیں میں جھانکا اور کہنے لگا کہ اندر کوئی بھوت نہیں ہے آپ بھی دیکھ کر تسلی کرلیں۔ اس نیک شخص نے جیسے ہی کنوئیں میں جھانکا حاسد نے اُسے دھکا دے دیا اور پھر خوش خوش واپس روانہ ہوگیا تاکہ اپنی بیوی کو یہ خبر سنا سکے۔ دوسری طرف نیک انسان کو کنوئیں میں جنوں نے پکڑ لیا اور بعض نے کہا کہ اسے قتل کردینا چاہئے مگر بعض دوسروں نے کہا کہ یہ ایک نیک انسان ہے اور دوسروں کے لئے فائدہ مند ہے۔ اور آج تو ملک کے بادشاہ کا قاصد اس کی طرف آ رہا ہے کیونکہ بادشاہ اپنی بیٹی کی بیماری کی وجہ سے بہت پریشان ہے۔ کسی نے کہا کہ کیا یہ شہزادی کا علاج کرسکے گا؟۔ اُن کے سردار نے کہا کہ شہزادی کا علاج مشکل نہیں اور یہ تو اپنے گھر کی سفید بلی کے چند بالوں کی دھونی دے کر ہی اس بیمار کی بیماری کو دور کر سکتا ہے… مشورے کے بعد اس نیک شخص کو عزت و آرام کے ساتھ باہر پہنچادیا گیا۔ پھر جب بادشاہ کا قاصد آیا تو اُس نے شہزادی کا علاج اُسی طریق پر کیا جیسا کہ جنوں کے سردار نے بتایا تھا۔ شہزادی صحتیاب ہوئی تو بادشاہ نے انعام و اکرام کے علاوہ شہزادی کی شادی بھی اُسی نیک شخص سے کردی اور بادشاہ کے مرنے کے بعد اُسے تاج و تخت بھی مل گیا۔…
حضرت حکیم صاحبؓ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے یہ کہانی سناکر فرمایا کہ اللہ بخش تم دیکھو گے کہ حاسد اپنے حسد کی آگ میں جلتے رہیں گے اور ناکامی کا منہ دیکھیں گے اور ہمیں اللہ تعالیٰ کامیابیوں اور برکتوں سے نوازے گا۔
حضرت حکیم اللہ بخش صاحبؓ کا مختصر ذکر خیر آپؓ کے نواسے مکرم مولانا عبدالباسط شاہد صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11؍مارچ 1998ء میں شامل اشاعت ہے۔