حضرت حکیم فضل دین صاحب رضی اللہ عنہ

بھیرہ کو تاریخ احمدیت میں اہم حیثیت حاصل ہے کیونکہ 313؍صحابہ کرام میں سے 7فیصد کا تعلق بھیرہ سے ہے جن میں حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ کی ذات گرامی بھی شامل ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے 1950ء میں یہاں کا دورہ فرمایا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک بزرگ صحابی حضرت حکیم فضل دین صاحب بھیرویؓ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے بچپن کے دوست اور ہم مکتب تھے۔ آپؓ کا نام حضرت اقدسؑ کی اکثر کتب کے ٹائٹل پر یوں درج ہے ’’…بااہتمام حکیم فضل دین طبع ہوا‘‘۔
حضرت حکیم فضل دین صاحبؓ 1842ء میں پیدا ہوئے۔ 1891ء میں بیعت کی سعادت پائی اور جلد ہی قادیان منتقل ہو گئے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے طباعت کا کام آپؓ کے سپرد فرمایا۔
بعد میں حضرت حکیم فضل دین صاحبؓ کپڑے کا کاروبار کرتے رہے اور زرعی اراضی کے بھی مالک تھے۔ رسالہ ’’نشان آسمانی‘‘کی امداد طبع کیلئے جن مخلصین کو حضرت اقدسؑ نے خطوط لکھے ان میں آپؓ بھی شامل تھے۔ اسی کتاب میں حضورؑ نے بیان فرمایا کہ حضرت حکیم صاحبؓ نے 700 جلدوں کی قیمت ادا کی ہے اور آپؓ پہلے بھی تقریباً 700 روپیہ بطور امداد دے چکے ہیں۔
حضورؑ نے متعدد بار آپؓ کا ذکر فرمایا ہے اور کئی مواقع پر بطور گواہ بھی آپؓ کا نام لکھا ہے۔ ایک جگہ آپؓ کی محبت کا ذکر یوں فرماتے ہیں ’’اخویم حکیم فضل دین صاحب بھیروی جس قدر مجھ سے محبت کرتے ہیں اس کے بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ میرے سچے خیرخواہ دلی ہمدرد اور حقیقت شناس مرد ہیں۔ میں ان کی ایمانی فراست سے متعجب ہوں کہ ان کے ارادے کو خدا کے ارادہ سے توارد ہو گیا‘‘۔
حضرت حکیم صاحبؓ کی کوئی جسمانی اولاد نہیں تھی اور آپؓ نے اپنی جائیداد صدر انجمن کے نام ہبہ کردی تھی۔ 1908ء میں آپؓ نے وفات پائی۔
آپؓ کا ذکر خیر محترم محمود مجیب اصغر صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5ستمبر 1996ء کی زینت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں