حضرت حکیم محمد حسین قریشی صاحبؓ

حضرت حکیم محمد حسین قریشی صاحبؓ کا شمار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے 313؍ صحابہؓ میں ہوتا ہے۔ آپؓ کا نام اس فہرست میں 271؍ نمبر پر درج ہے۔ آپؓ کا ذکر خیر سہ ماہی ’’النساء‘‘ کے جلسہ سالانہ نمبر 1999ء میں مکرمہ عطیہ شریف صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت حکیم صاحبؓ 3؍مئی 1869ء کو لاہور کے ایک متموّل خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپؓ کے دادا اور والد لاہور میں پشم و ریشم کی تجارت کرتے تھے۔ آپؓ نے طب کی تعلیم حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحبؓ سے لاہور اور سرینگر میں رہ کر حاصل کی تھی۔ چنانچہ جب آپؓ نے سنا کہ حضرت مولانا صاحبؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کرلی ہے تو آپ بھی جلد ہی بیعت کرکے جماعت احمدیہ میں داخل ہوگئے۔ اُس وقت آپؓ کی عمر تئیس سال تھی۔ آپؓ کے والد اور دادا نے آپؓ کو سخت تکالیف دیں اور گھر سے نکال دیا گیا لیکن آپؓ نے استقلال کے ساتھ ہر مصیبت کا مقابلہ کیا۔ تاہم آپؓ کی اہلیہ نے بھی آپؓ کے ساتھ ہی احمدیت قبول کرلی۔ پھر آپؓ قادیان چلے گئے جہاں آپؓ کا قیام دارالمسیح کے گول کمرہ میں رہا۔ کچھ عرصہ بعد لاہور تشریف لائے اور جلد ہی یہاں ایک شاندار مکان تعمیر کرنے کی توفیق پائی۔
حضرت حکیم صاحبؓ حافظ قرآن تھے اور ساری عمر لاہور میں نماز تراویح پڑھانے کا شرف حاصل کرتے رہے۔ لاہور کے قائمقام امیر بھی رہے۔ 1924ء میں لاہور کی احمدیہ مسجد تعمیر کروائی اور جماعت کے مالی حالات کمزور ہونے کی وجہ سے آپؓ نے دوسرے احمدیوں کے ساتھ مل کر مزدوروں کی طرح کام کیا۔ جب آپؓ مسجد کی تعمیر کے لئے چندہ کی تحریک فرماتے تو اِس درد سے فرماتے کہ لوگ اپنی جیبیں خالی کر دیا کرتے تھے۔
آپؓ اُن خوش نصیب اصحاب میں سے تھے جن کو بعض اہم مواقع پر سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ اپنے ہاتھ سے خط لکھا کرتے تھے۔ آپؓ کے ایک بیٹے کی وفات پر حضورؑ نے لکھا: ’’اے عزیز! دنیا ہر ایک مومن کے لئے دارالامتحان ہے۔ اللہ تعالیٰ آزماتا ہے کہ اس کی قضا و قدر پر صبر کرتے ہیں یا نہیں … چاہئے کہ ہمیشہ درود شریف اور نیز استغفار آپ دونوں پڑھا کریں‘‘۔
آپؓ کی ایک بیٹی زینب اورحضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ تقریباً ہم عمر تھیں۔ مارچ 1907ء میں زینب کی وفات ہوئی تو حضورؑ کو قبل از وقت الہام ہوا ’’افسوسناک خبر آئی ہے‘‘۔ چنانچہ حضورؑ نے آپؓ کے نام اپنے خط میں اس الہام کا ذکر کرکے صبر کی نصیحت فرمائی۔
ایک بار حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی نے آپؓ کو لکھا کہ مسجد مبارک سے متصل مکان خریدنے کے لئے سات سو روپیہ بطور قرض درکار ہے۔ چنانچہ آپؓ نے فوراً انتظام کرکے یہ رقم قادیان بھجوادی۔
خلافت اولیٰ کی ابتداء میں جب خواجہ کمال الدین صاحب نے لاہور کے احمدیوں کو اپنے مکان پر بلا کر ایک جلسہ کیا جس میں یہ اثر ڈالنے کی کوشش کی کہ خلافت اور انجمن کے جھگڑے کا صحیح حل یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات کی رو سے آپؑ کی حقیقی جانشین صدر انجمن ہے۔چنانچہ خواجہ صاحب کی شخصیت سے مرعوب ہوکر جماعت کے بعض لوگ اُن سے متفق ہوگئے۔ حضرت حکیم صاحبؓ اور حضرت بابو غلام محمد صاحبؓ نے اس معاملہ کو بھانپ لیا اور خواجہ صاحب کی طرف سے تیار کئے گئے محضرنامہ پر دستخط کرنے سے انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ جب ہم نے ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت کرلی ہے تو اب ہمارا کوئی حق نہیں کہ خلیفہ کے اختیارات کے بارہ میں سوچنا شروع کردیں، خلیفۃالمسیح ہم سے زیادہ عالم ہیں، زیادہ خشیۃاللہ رکھتے ہیں اور حضورؑ کی تحریروں کو سب سے زیادہ سمجھنے والے ہیں، لہٰذا جو فیصلہ خلیفۃالمسیح خود کریں گے ہم تو اسی پر عمل کریں گے۔
جب یہ آواز اٹھی تو کئی دوسرے لوگوں نے بھی دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ بعد ازاں 31؍جنوری 1909ء کو قادیان میں حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ نے سلسلہ کے نمائندوں کے سامنے غیرمبائعین کی غلط بیانیوں کا سارا تاروپود کھول دیا اور اُن کے لیڈروں مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب سے دوبارہ بیعت لی۔
لین دین کے معاملہ میں حضرت حکیم صاحبؓ بڑے صاف اور کھرے تھے۔ ایک دفعہ آپؓ نے ایک ہندو دوکاندار سے ایک دوست کو اس شرط پر قرض لے کر دیا کہ زیور پسند آنے پر قیمت اور پسند نہ آنے پر زیورواپس کردیا جائے گا۔ جب زیور کسی وجہ سے مقررہ روز تک واپس نہ آیا تو آپؓ نے خاموشی سے صراف کو قیمت ادا کردی اور پھر زیور واپس آنے پر اُسے کسی دوسرے دوکاندار کے پاس نقصان میں بیچ دیا۔ جب زیور دینے والے دوکاندار کو علم ہوا تو اُس نے گھر آکر عرض کی کہ آپ نے معاہدہ کا ایک دن کیوں نہ بڑھوالیا اور کیوں خواہ مخواہ نقصان برداشت کیا۔ اس پر آپؓ نے فرمایا کہ مسلمان اپنے عہد کا پابند ہوتا ہے اس لئے کسی قسم کی تاخیر مناسب نہ تھی۔
حضرت حکیم صاحبؓ غربائ، یتامیٰ اور بیوگان کا بہت خیال رکھتے۔ تلاش روزگار کے لئے لاہور آنے والے احمدیوں کی ہرممکن مدد فرماتے۔ اکثر کچھ رقم دے کر فرماتے کہ پھل یا کوئی اَور چیز لے کر بیچو اور اپنی آمدنی خود پیدا کرو۔ ایک احمدی میاں محمد عظیم صاحب کی لاہور آنے پر مسجد احمدیہ میں حضرت حکیم صاحبؓ سے ملاقات ہوئی تو آپؓ نے انہیں بھی کچھ رقم دی اور انہوں نے مٹھائی بنانا شروع کردی۔ آپؓ روزانہ دریافت فرماتے کہ کس قدر بِکری ہوئی ہے۔ ایک دفعہ جب بِکری بہت کم ہوئی تھی تو آپؓ نے ساری مٹھائی خود خرید لی۔
آپؓ کو احمدیوں کی تربیت کا بہت خیال رہتا تھا۔ اگر کوئی تنازعہ پیدا ہوتا تو آپؓ اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتے جب تک اسے رفع دفع نہ کرلیتے۔ بعض اوقات کسی دوردراز رہنے والے احمدی سے ایک روپیہ چندہ لینے کی خاطر اپنی جیب سے کرایہ کے دو تین روپے خرچ کردیتے تاکہ اُس احمدی کو چندہ دینے کی عادت ہو جائے۔
حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ نے مسند خلافت پر متمکن ہونے سے قبل ’’الفضل‘‘ میں حضرت حکیم صاحبؓ کے ایک مضمون سے پہلے اپنے نوٹ میں لکھا: ’’حکیم صاحب … اُن چند لوگوں میں سے ہیں جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام بے تکلفی سے کام بتلا دیا کرتے تھے‘‘۔
ایک بار جب حضرت حکیم صاحبؓ بیمار ہوئے تو ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ پھیپھڑے گل چکے ہیں اور آپؓ چند دن کے مہمان ہیں۔ آپؓ نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا اور ایک دن خواب دیکھا کہ ایک فرشتہ نے آپؓ کا سینہ چاک کرکے گلے سڑے پھیپھڑے نکال کر پھینک دیئے ہیں اور صحیح و سالم پھیپھڑے رکھ دئے ہیں۔ اس رؤیا کے بعد آپؓ تندرست ہوگئے اور کئی سال کے بعد 12؍اپریل 1933ء کو 63 سال کی عمر میں وفات پائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں