حضرت حکیم محمد چراغ الدین صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7؍اکتوبر2008ء میں حضرت حکیم محمد چراغ الدین صاحبؓ کا مختصر ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔ آپؓ کے بیٹے حضرت منشی عبدالحق صاحبؓ خوشنویس (والد محترم مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب) کو 1897ء میں بیعت کی توفیق ملی۔ اگرچہ حضرت حکیم صاحب بھی متعدد بارقادیان گئے۔ لیکن بیعت کیلئے انشراح نہ ہوا۔ آخر جب سیدنا حضرت مسیح موعودؑ مقدمہ کے سلسلہ میں جہلم تشریف لے گئے تو وہاں پہنچ کر حکیم صاحب نے بیعت کی۔ آپؓ پابند صوم و صلوٰۃ، قرآن مجید کے عاشق تھے اور خدمت خلق ان کے دل کی تسکین تھی۔
سیدنا حضرت مصلح موعود نے اپنے متعدد خطبات میں ان سے قادیان میں پہلی ملاقات کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا ہے: ’’ہمارے مولوی نورالحق صاحب کے دادا بھی ایسے لوگوں میں سے تھے یعنی لمبی عمر پانے والے ۔ حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی جن دنوں فالج کے حملہ سے بیمار تھے اسی سال خدام الاحمدیہ کا دفتر بن رہا تھا۔ میں وہ دفتر دیکھنے جا رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک آدمی بڑا تیز تیز چل کر میری طرف آ رہا ہے۔ وہ مجھے ملا اور اس نے مجھ سے مصافحہ کیا۔ میں نے دریافت کیا کہ آپ کا کیا نام ہے؟ انہوں نے اپنا نام بتایا اور کہا میں گجرات سے آیا ہوں۔ پھر انہوں نے پنجابی زبان میں کہا جہیڑا غلام رسول وزیرآبادی کہلاندائے میں اس دا حال پوچھنے آیا ہوں۔ یعنی غلام رسول وزیر آبادی جو کہلاتے ہیں ان کا حال دریافت کرنے آیا ہوں۔ حافظ غلام رسول صاحب ہماری جماعت میں بہت بڑے محترم سمجھے جاتے تھے مگر انہوں نے اس بے تکلفی سے ان کا نام لیا تو میں نے پوچھا کہ حافظ صاحب سے آپ کا کیا رشتہ ہے؟ انہوں نے بتایا کہ وہ میرے بھتیجے ہیں۔ میں نے کہا معلوم ہوتا ہے آپ کے والد نے آخری عمر میں دوسری شادی کی تھی جس سے آپ پیدا ہوئے اس لئے آپ کی عمر ان سے چھوٹی معلوم ہوتی ہے۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ جدوں غلام رسول دی مائو دا ویاہ ہویا سی میں اٹھارہ سال دا ساں (یعنی جب غلام رسول صاحب کی والدہ کی شادی ہوئی تھی اس وقت میں اٹھارہ سال کا تھا)۔ بعد میں وہ 103یا 107سال کی عمر میں فوت ہوئے اور وہ اس عمر میں خوب چل پھر لیتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ میں بیس بیس پچیس پچیس میل پیدل چلا جاتا ہوں‘‘۔
حضرت حکیم صاحبؓ کی وفات 7؍اکتوبر 1942ء کو ہوئی ۔ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور آپؓ بہشتی مقبرہ میں دفن کئے گئے۔