حضرت خالدؓ بن ولید
ماہنامہ ’’خالد‘‘ جنوری 2000ء میں حضرت خالد ؓ بن ولید کے بارہ میں ایک تفصیلی مضمون مکرم فرید احمد نوید صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت خالدؓ بن ولید قریش کے ایک ممتاز قبیلے بنومخزوم سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے والد عبد شمس ولید بن مغیرہ مکہ کے امیر و کبیر اور طاقتور آدمی تھے۔ عقل و فہم اور خطابت میں اُن کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ ابتداء میں وہ اسلام کی مخالفت سے دور رہے اور ایک موقعہ پر تو قرآن کریم کی بعض آیات کی تعریف بھی کی لیکن جلد ہی خاندانی وجاہت اور معاشرتی دباؤ کی وجہ سے اسلام کی مخالفت پر کمربستہ ہوگئے۔ آنحضرتﷺ کی ہجرتِ مدینہ کے قریباً تین ماہ بعد حادثاتی طور پر ایک تیر لگنے سے سخت زخمی ہوگئے اور چند دن کے بعد 95 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔
چونکہ خالد بن ولید کو مالی لحاظ سے آسودگی حاصل تھی اور پیسہ کمانے کا تردّد نہیں کرنا پڑا اس لئے آپ نے اپنے وقت کو بیکار ضائع کرنے کی بجائے فنون سپہ گری میں کمال حاصل کرنے میں صرف کرنا شروع کردیا۔ آپ حضرت عمرؓ کے ہم عمر تھے اور آنحضورﷺ سے قریباً تیرہ سال چھوٹے تھے۔ ابتداء سے ہی اسلام کی مخالفت کی اور جنگ اُحد میں جب بعض مسلمان سپاہی، آنحضرتﷺ کے واضح فرمان کے باوجود پہاڑ کے درّہ سے اتر آئے تو خالد نے مسلمانوں پر عقب سے حملہ کرکے بہت جانی نقصان پہنچایا۔ اس واقعہ میں بعض مسلمان سپاہیوں کی غلطی کے ساتھ ساتھ خالد بن ولید کی جنگی بصیرت کا بھی بہت دخل تھا۔
جنگ اُحد کے بعد بھی لمبا عرصہ آپ مسلمان نہ ہوئے لیکن اسلام کی مسلسل فتوحات نے آپ کے دل کو متغیر کردیا اور آپ سوچا کرتے کہ آپ نے آنحضورﷺ کے خلاف کئی جنگوں میں حصہ لیا لیکن ہمیشہ ناکامی کا منہ دیکھا۔ چنانچہ آپ کو یقین ہوگیا کہ آپ ایک غلط راستہ پر کھڑے ہیں۔ اسی دوران آپ کے بھائی ولید نے (جو مسلمان ہوچکے تھے) آپ کو خط میں لکھا کہ ’’مجھے تعجب ہے کہ تم اسلام سے اس قدر متنفر کیوں ہو حالانکہ جس عقل و دانش کے تم مالک ہو وہ کبھی بھی اسلام کے نور سے بے بہرہ نہیں رہ سکتی۔ رسول اللہﷺ نے بھی مجھ سے تمہارے بارہ میں دریافت فرمایا تھا… حضور نے فرمایا کہ خالد جیسا شخص کبھی بھی اسلام کی حقیقت سے ناواقف نہیں رہ سکتا … اے میرے بھائی! گمراہی کے بہت دن گزر چکے، اب حقیقت کو پہچان لو اور سیدھے راستے پر آجاؤ‘‘۔ بھائی کا خط پڑھ کر آپ کو اسلام کی طرف رغبت پیدا ہوگئی اور اُس گفتگو کی خوشی ہوئی جو بھائی کی آنحضورﷺ کے ساتھ ہوئی تھی۔ آخر آپ نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ انہیں دنوں خواب دیکھا کہ آپ ایک ویران اور چٹیل جگہ پر کھڑے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی راہنمائی سے وہاں سے نکل کر ایک فراخ اور سرسبز میدان میں آگئے ہیں۔
جب خالد نے مکہ سے نکلنے کی تیاری مکمل کرلی تو اپنے دوست صفوان بن امیہ کے پاس گئے اور کہا کہ ’’تم دیکھتے ہو کہ محمدؐ عرب اور عجم پر غالب آگئے ہیں، اگر ہم اُن کے پاس جاکر اُن کی اطاعت قبول کرلیں تو جو شرف ان کو حاصل ہونے والا ہے اس میں ہم بھی حصہ دار بن جائیں گے۔ صفوان نے اس پر کہا کہ اگر تمام دنیا بھی محمدؐ کو قبول کرلے تو مَیں پھر بھی اُن پر ایمان نہیں لاؤں گا۔ پھر خالد عکرمہ بن ابوجہل سے ملے تو اُس نے بھی یہی جواب دیا۔ اگرچہ عکرمہ نے وعدہ کیا کہ وہ یہ بات کسی اَور کو نہیں بتائے گا۔ پھر خالد عثمان بن طلحہ سے ملے تو وہ آمادہ ہوگئے اور اس طرح اگلے روز دونوں مکہ سے مدینہ کے لئے روانہ ہوگئے۔ راستہ میں انہیں عمرو بن العاص ملے جو اسلام قبو ل کرنے حبشہ سے مدینہ جارہے تھے۔ چنانچہ تینوں اکٹھے مدینہ پہنچے۔ آنحضورﷺ نے خوشی سے فرمایا: ’’اے مسلمانو! مکہ نے اپنے جگر گوشے نکال کر تمہارے سامنے ڈال دیئے ہیں‘‘۔ جب حضرت خالدؓ نے اسلام قبول کیا تو آنحضورﷺ نے فرمایا: اللہ کا شکر ہے کہ اس نے تمہیں ہدایت عطا فرمائی، مجھے بڑی امید تھی کہ تمہاری فراست بالآخر تمہیں سیدھے راستے کی طرف لے آئیگی۔ آپؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مَیں آپ کے خلاف کئی جنگوں میں لڑ چکا ہوں۔ آپ اللہ تعالیٰ سے میرے گناہوں کی معافی کے لئے دعا کریں۔ چنانچہ آنحضورﷺ نے دعا کی اور رہائش کے لئے اُن مکانوں میں سے ایک مکان عنایت فرمایا جو حضرت حارثہؓ بن نعمان نے آپؐ کی خدمت میں پیش کئے تھے۔
8 ہجری میں حضرت خالدؓ نے اسلام قبول کیا اور اسی سال مکہ فتح ہوا۔ اس موقع پر آنحضرتﷺ نے آپؓ کو لشکر کے ایک حصے کا امیر بھی مقرر فرمایا اور سب سے پہلے مکہ میں داخل ہونے کا حکم دیا۔ اس لشکر کو کفار نے تلوار کے زور سے روکنے کی کوشش کی تو لڑائی شروع ہوگئی اور اس معرکے میں تین مسلمان شہید ہوئے اور تیرہ کفار مارے گئے۔ اس کے بعد کسی اَور جگہ مزاحمت نہیں کی گئی۔ فتح مکہ کے بعد آپؓ نے آنحضورﷺ کے ارشاد پر عرب قبائل کی طرف بھیجی جانے والی بعض مہمات کی قیادت بھی کی۔
8 ہجری میں ہی جب حاکم موتہ شرجیل نے مسلمان سفیر حضرت حارث بن عمیرؓ کو شہید کردیا تو اُس کو تنبیہ کرنے کیلئے آنحضورﷺ نے اپنے تین ہزار جانثاروں کا ایک لشکر حضرت زید بن حارثؓ کی قیادت میں موتہ کی طرف روانہ فرمایا اور فرمایا کہ اگر زیدؓ شہید ہوجائیں تو جعفرؓ بن ابوطالب سپہ سالار ہوںگے اور اگر وہ شہید ہوجائیں تو عبداللہ بن رواحہؓ سپہ سالار ہوں گے اور اگر یہ بھی شہید ہوجائیں تو مسلمان جسے چاہیں سالار مقرر کرلیں اور جہاد کریں۔ جب یہ لشکر موتہ کے مقام پر پہنچا تو رومیوں کا ایک لاکھ کا لشکر اس کے مقابلہ پر آیا۔ اگرچہ مسلمان بڑی بہادری سے لڑے لیکن رومیوں کی تعداد اور اُن کا علاقہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی کچھ پیش نہیں جارہی تھی۔ آنحضرتﷺ کے بنائے ہوئے تینوں سالاروں کی شہادت کے بعد مسلمانوں نے حضرت خالدؓ کو سپہ سالار منتخب کرلیا۔ اس موقع پر یوں معلوم ہوتا تھا کہ دشمن مسلمانوں کو پیس ڈالے گا۔ مدینہ میں آنحضرتﷺ کو اللہ تعالیٰ کشفی رنگ میں میدان جنگ کے واقعات سے آگاہ کر رہا تھا۔ جب عبداللہ بن رواحہؓ بھی شہید ہوگئے تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اب لشکر اسلامیہ کی قیادت سیف اللہ نے اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔ حضرت خالدؓ نے بڑی حکمت عملی سے مسلمانوں کو دشمن کے نرغے سے نکال لیا۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں آپؓ نے خلیفۂ وقت کے حکم پر بڑی دلیری سے فتنوں کا قلع قمع کیا بلکہ ایرانی حکومت کی معاندانہ کوششوں کا بھی منہ توڑ جواب دیا۔ چنانچہ 11ہجری میں ایرانیوں کو شکست دے کر پہلے عراق پر قبضہ کرلیا۔ پھر حضرت ابوبکرؓ کے حکم پر 13ہجری میں شام کا رُخ کیا اور یرموک کے مقام پر رومی لشکر سے جاٹکرائے۔ رومیوں کو بری طرح شکست ہوئی اور اسلام کی نئی فتوحات کے دروازے کھل گئے۔
جنگ یرموک کے دوران ہی حضرت ابوبکر صدیقؓ کی وفات ہوگئی اور حضرت عمرؓ نے بعض مصالح کی بنا پر حضرت خالد بن ولید کی جگہ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح کو افواج کا سالار مقرر فرمایا۔ اس فیصلے کو حضرت خالدؓ نے بڑی خندہ پیشانی سے قبول کیا اور نئے سالار کی قیادت میں اسلام کی خدمت پر کمربستہ رہے اور ایک عام سپاہی کی حیثیت سے بھی کارہائے نمایاں سرانجام دیئے۔ حضرت عمرؓ بھی اپنے اس غلام کی اعلیٰ صلاحیتوں کے معترف تھے اور آپؓ کا ذکر بڑی محبت سے کرتے۔ آپؓ کی وفات پر فرمایا: خالدؓ کے مرنے سے اسلام کی فصیل میں ایک ایسی دراڑ پڑ گئی ہے جو کبھی پُر نہ کی جاسکے گی۔
حضرت خالدؓ کی زندگی کا لمبا عرصہ میدان جہاد میں گزرا لیکن آپؓ کا شوق شہادت پورا نہ ہوسکا۔ 21ہجری میں قریباً ساٹھ سال کی عمر میں آپؓ نے شام کے شہر حمص میں وفات پائی۔