حضرت خالد بن زیدؓ (ابو ایوب انصاری)
ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ مارچ 2005ء میں مکرم سید عطاء الواحد رضوی صاحب کا مضمون بعنوان حضرت خالد بن زیدؓ شامل اشاعت ہے۔
غزوہ خیبر کے بعد آنحضرتﷺ کی شادی حضرت صفیہؓ سے ہوئی تو پہلی رات خیمہ کے باہر ایک صحابی تلوار لئے ساری رات خیمہ کا چکر لگاتے ہوئے پہرہ دیتے رہے، صبح ہوئی، آنحضورﷺ باہر نکلے تو پوچھا خیر تو ہے؟ کیا بات ہے؟ وہ کہنے لگے یا رسول اللہ! میرے دل میں اس عورت کی بابت خوف پیدا ہوا کہ اس کا باپ، اس کا خاوند اور اس کے قبیلہ کے افراد قتل ہوئے ہیں اور خود نیا نیا اسلام قبول کیا ہے تو مجھے ڈر پیدا ہوا کہ کہیں آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچادے، اس لئے میں پہرہ دینے کے لئے چلا آیا۔ آنحضورﷺ نے اپنے اس جانثار صحابی کے جذبات کو دیکھا تو خوش ہوکر دُعا دی کہ اے میرے خدا! جس طرح آج رات پہرہ دیتے ہوئے اس نے میری حفاظت کی ہے تو بھی اس کی حفاظت فرمانا۔
یہ جانثار اور فدائی صحابی حضرت ابو ایوب خالدؓ بن زید تھے جو کہ ابو ایوب انصاری کے نام سے معروف ہیں۔ آپؓ بھی ان منتخب بزرگان مدینہ میں سے ہیں جنہوں نے عقبہ کی گھاٹی میں جاکر رسول کریمﷺ کے دست ِ مبارک پر اسلام قبول کیا تھا اور مدینہ واپس جاکر اپنے اہل وعیال کو بھی تبلیغ کی اور اپنی زوجہ کو اسلام کے دائرہ میں داخل کرنے کی توفیق پائی۔
الٰہی منشاء کے مطابق جب رسول کریمﷺ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور مدینہ میں داخل ہوئے تو مدینہ کے رہنے والوں نے آپؐ کا پُرخلوص استقبال کیا اور ہر قبیلہ والا یہ کہتا کہ حضور ہمارا گھر قریب ہے آپ ہمیں یہ شرف عطا فرمائیں لیکن آنحضورﷺ نے فرمایا:
خَلُّوْا سَبِیْلَھَا فَاِنَّھَا مَأمُوْرَۃ
کہ میری اس اونٹنی کو چھوڑ دو جہاں اس کو حکم ہوگا بیٹھ جائے گی۔ آخر حضورﷺ کی سواری بنی مالک بن النجار کے قبیلے کے گھروں کے پاس رُک گئی۔ پھر قرعہ اندازی ہوئی جس میں حضرت خالد بن زیدؓ یعنی ابوایوب انصاریؓ کا نام نکلا اور اس طرح آپ کو رسول کریمﷺ کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ آنحضرتﷺ آپؓ کے گھر میں تقریباً 6 مہینے تک فروکش رہے اور اس عرصہ میں حضرت ابو ایوبؓ نے نہایت عقیدت مندانہ جوش کے ساتھ آپ کی میزبانی کی۔ ان کے مکان کے اوپر نیچے دو حصّے تھے۔ انہوں نے اوپر کا حصّہ آنحضرتﷺ کے لئے مخصوص کیا لیکن آنحضورﷺ نے اپنی اور زائرین کی آسانی کی خاطر نیچے کا حصہ پسند فرمایا۔ ایک دفعہ اتفاق سے کوٹھے پر پانی کا گھڑا ٹوٹ گیا۔ چھت معمولی تھی، ڈر تھا کہ پانی نیچے ٹپکے اور آنحضرتﷺ کو تکلیف ہو۔ گھر میں میاں بیوی کے اوڑھنے کیلئے صرف ایک ہی لحاف تھا۔ دونوں نے لحاف پانی پر ڈال دیا کہ پانی خشک ہو جائے اور حضورﷺ کو کوئی تکلیف نہ ہو۔
رسول کریمﷺ جب تک آپؓ کے پاس رہے آپؓ خود حضورﷺ کے واسطے کھانا لے کر جاتے یا اور کوئی انصار۔ رسول کریمﷺ تناول فرمالینے کے بعد باقی کھانا حضرت ابو ایوب الانصاری کے پاس بھیج دیتے اور آپؓ آنحضورﷺ کی انگلیوں کے نشان دیکھ کر وہاں سے وہ متبرک کھانا تناول کرتے۔ ایک دفعہ کھانا واپس آیا تو رسول کریم ﷺ کے انگلیوں کے نشان نہ دیکھ کر آپؓ سمجھ گئے کہ آنحضورﷺ نے کھانا تناول نہیں فرمایا۔ آپؓ رسول کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ حضور! آج آپ نے کھانا تناول نہیں فرمایا؟ حضورﷺ نے فرمایا کہ ہاں! کیونکہ اس میں لہسن تھا اور میں نے اس کی ناگوار بو کی وجہ سے نہیں کھایا، فرشتوں کی ناپسندیدگی کے باعث، ہاں تم لوگ کھاسکتے ہو۔
رسول کریمﷺ نے جب صحابہؓ کو رشتہ اخوت میں پرویا تو اولین داعی یثرب حضرت مصعب بن عمیرؓ کو حضرت ابو ایوب الانصاری کا بھائی بنایا۔
حضرت ابو ایوب الانصاریؓ آنحضرت ﷺ کے ساتھ تمام غزوات میں دیگر اکابر صحابہؓ کی طرح برابر کے شریک رہے۔ آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد بھی آپؓ کی زندگی کا بیشتر حصہّ جہاد میں صرف ہوا۔ حضرت علیؓ کے عہد خلافت میں جو لڑائیاں پیش آئیں ان میں جنگ خوارج میں بھی آپؓ شریک تھے اور حضرت علیؓ کی حمایت میں اُن کے ساتھ رہے۔ حضرت علیؓ کو بھی آپؓ پر بے حد اعتماد تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب حضرت علیؓ عراق کی طرف روانہ ہوئے اور کوفہ کو دارالخلافہ قرار دیا تو مدینہ میں حضرت ابو ایوب الانصاریؓ کو امیر مقرر فرما کر گئے۔
اس حسن خدمت اور محبت کی یادگار میں جو آپ کو آنحضرتﷺ کی ذات سے تھی تمام اصحابؓ اور اہل بیت آپؓ سے محبت و عظمت کے ساتھ پیش آتے تھے۔ حضرت ابن عباسؓ، حضرت علیؓ کی طرف سے بصرہ کے گورنر تھے۔ اس زمانے میں آپؓ حضرت ابن عباسؓ کی ملاقات کو بصرہ تشریف لے گئے تو ابن عباسؓ نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ جس طرح آپ نے آنحضرتﷺ کی اقامت کے لئے اپنا گھر خالی کردیا تھا میں بھی آپ کے لئے اپنا گھر خالی کردوں اور پھر اپنے تمام اہل و عیال کو دوسرے مکان میں منتقل کردیا اور مکان مع اس تمام سازوسامان کے جو گھر میں موجود تھا آپؓ کے حوالے کردیا۔
حضرت ابو ایوب الانصاریؓ کے مجموعہ اخلاق میں تین چیزیں نمایاں تھیں یعنی حُبِّ رسولﷺ، جوش ایمان اور حق گوئی۔
رسول کریم ﷺ کے ساتھ آپؓ کو ایک محبت اور ادب کا خاص تعلق تھا جس کا اندازہ اس واقعہ سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آنحضرتؓ جب آپ کے ہاں ٹھہرے اور نچلی منزل میں قیام فرمایا تو حضرت ابوایوب انصاری اپنے افراد کو لیکر اوپر والی منزل میں چلے گئے تو ساری پہلی رات جاگتے رہے ۔ ایک طرف لیٹتے تو گمان آتا کہ نیچے حضورؐ سوئے ہوئے ہیں تو کہیں یہ احترام کے خلاف نہ ہو، پھر دوسری طرف چلے جاتے اور پھر وہی عاشقانہ جوش آتا تو وہاں سے تیسرے کونے میں چلے جاتے اور اس طرح ساری رات اس پاس ادب میں جاگ کر گزار دی۔
آنحضرتﷺ کے تمام صحابہ میں ایک مشترک وصف آپؐ سے عشق تھا۔ ابو ایوب الانصاری ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کے روضۂ اقدس کے پاس تشریف رکھتے تھے اور اپنا چہرہ روضہ اقدس سے مس کررہے تھے۔ اتنے میں مدینہ کا گورنر مروان آگیا۔ اس کو بظاہر یہ فعل خلاف سنت نظر آیا اور آپ سے اس فعل پر سوال کیا تو اصل اعتراض کو سمجھ کر آپ نے فرمایا کہ میں آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں، اینٹ اور پتھر کے پاس نہیں آیا ۔
آپؓ کا جوش ایمان اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی بھی غزوہ میں آپؓ پیچھے نہیں رہے بلکہ اسّی برس کی عمر میں بھی مصر سے بحر روم کو عبور کر کے قسطنطنیہ کی دیواروں کے نیچے اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے جہاد میں مصروف تھے۔ جب اس علاقہ میں عام وبا پھیلی اور مجاہدین کی بڑی تعداد اس کی نذر ہوگئی۔ حضرت ابوایوب انصاریؓ بھی بیمار ہوئے۔ یزید عیادت کے لئے گیا جو لشکر کا سپہ سالار تھا اور پوچھا کہ کوئی وصیت کرنی ہوتو فرمائیے تعمیل کی جائے گی۔ آپ نے فرمایا: تم دشمن کی سرزمین میں جہاں تک جاسکو میرا جنازہ لے جا کر دفن کرنا۔ چنانچہ وفات کے بعد اس کی تعمیل کی گئی تمام فوج نے ہتھیار سجا کر رات کو لاش قسطنطنیہ کی دیواروں کے نیچے دفن کی۔ نماز میں جس قدر مسلمان فوجی تھے شامل ہوئے۔ تدفین کے بعد یزید نے مزار کے ساتھ کفار کی بے ادبی کے خوف سے اس کو زمین کے برابر کرا دیا۔