حضرت خانصاحب منشی برکت علی صاحبؓ شملوی

حضرت خانصاحب منشی برکت علی صاحبؓ شملوی نے صدر انجمن کے انتہائی ذمہ دار عہدوں پر کام کرنے کے باوجود کسی رنگ میں تنخواہ یا الاؤنس لینا پسند نہیں فرمایا بلکہ کوئی بھی مالی تحریک ایسی نہیں جس میں آپؓ نے حصہ نہ لیا ہو۔ آپؓ کے بارے میں مکرم شیخ خورشید احمد صاحب کا ایک مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25؍اکتوبر1997ء میں ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے۔
حضرت خانصاحبؓ1872ء میں بستی شیخ ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے۔ آپؓ کے والد بچپن میں ہی فوت ہوگئے۔ آٹھ سال کی عمر میں ایک دیہاتی سکول میں داخل ہوئے، ذہین اتنے تھے کہ پانچویں میں ضلع بھر میں اول آئے۔ انٹرنس کرکے 1893ء میں دفتر ڈائریکٹر انڈین میڈیکل سروس میں کام شروع کیا اور 1932ء میں یہیں سے پنشن پائی۔ جنگ عظیم اول کے دوران آپؓ کی خدمات کے پیش نظر آپؓ کو ’’خان صاحب‘‘ کا خطاب عطا ہوا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آپؓ قادیان منتقل ہوگئے۔
1900ء میں حضرت خانصاحبؓ کو شملہ میں چند احمدیوں کے پڑوس میں رہنے کا اتفاق ہوا جن سے خوب بحث کیا کرتے۔ غیراحمدی دوست خوش ہوتے تھے کہ یہ احمدیوں کا مقابلہ خوب کرتا ہے لیکن آپؓ کا بیان ہے کہ میں تعصب اور ضد کی بجائے دیانتداری سے تحقیق کر رہا تھا۔ ایک روز آپؓ نے خواب میں دیکھا کہ ’’کسی نے خبر دی ہے کہ مرزا صاحب احمدیوں کے کمرے میں تشریف لائے ہوئے ہیں ان سے آکر مل لو۔ چنانچہ میں گیا تو حضرت صاحب ایک چارپائی پر تہہ بند باندھے بیٹھے تھے اور سر اور جسم پر کپڑا نہیں تھا۔ میں نے سلام عرض کیا ، آپؑ نے جواب دیا اور کہا کہ برکت علی تم ہماری طرف کب آؤ گے۔ میں نے عرض کی اب آ ہی جاؤں گا‘‘۔ اس کے بعد آنکھ کھل گئی تو صبح کا وقت تھا۔… یہ خواب دیکھ کر آپؓ نے پہلے تحریری بیعت کی اور پھر خدمت اقدسؑ میں دستی بیعت بھی کرلی۔پھر آپؓ کی دعوت الی اللہ سے خاندان کے دوسرے افراد بھی آغوش احمدیت میں آنے لگے۔ ایک موقعہ پر آپؑ نے حضور علیہ السلام کو صرف تہہ بند میں دیکھا تو دل نے گواہی دی کہ یہ تو وہی شکل ہے جو خواب میں دکھائی گئی تھی۔ (صرف تہہ بند بندھے ہونے کی تعبیر حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یہ بیان فرمائی کہ حضرت اقدسؑ دنیا کی زیب و زینت سے بالا اور آزاد ہیں اور درویشانہ زندگی رکھتے ہیں)۔
1914ء میں جب حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی وفات ہوئی تو حضرت خانصاحبؓ شملہ میں تھے۔ آپؓ نے دوستوں کو سمجھایا کہ ہمیں اس بات کے لئے تیار رہنا چاہئے کہ جدھر کثرت رائے ہو ہم ادھر ہو جائیں۔چنانچہ نئے انتخاب کی اطلاع ملتے ہی آپؓ نے دوستوں کے مکانوں پر جاکر بیعت کے دستخط کروائے۔
جب حضرت خانصاحبؓ قادیان آئے تو ابتداء میں حضرت مصلح موعودؓ نے آپؓ کو نائب ناظر اعلیٰ مقرر فرمایا اور بعد ازاں نائب اور پھر جائنٹ ناظر مال مقرر ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد آپؓ کو لاہور میں بطور ناظر مال چارج لینے کا ارشاد ہوا جہاں سے آپؓ نے 1948ء میں رخصت لی اور پھر بعض مجبوریوں کے باعث مزید خدمت کے لئے حاضر نہ ہوسکے۔
1928ء میں گو ابھی آپ مزید ملازمت کرسکتے تھے لیکن آپؓ نے ریٹائر ہونے کا ارادہ کرلیا اور اسی ارادہ سے قادیان آگئے لیکن حضرت مصلح موعودؓ نے آپؓ کوملازمت جاری رکھنے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ آپؓ واپس شملہ آگئے اور پھر 32ء میں ریٹائر ہوئے تو دہلی کی جماعتوں نے آپؓ کے اعزاز میں ایک چائے کی پارٹی دی جس میں حضرت مصلح موعودؓ بھی شریک ہوئے جو اتفاقاً ان دنوں وہاں مقیم تھے۔
حضرت خانصاحبؓ کے دفتر میں ایک لاٹری کیلئے ہرماہ رقم اکٹھی کی جاتی تھی ۔ 1903ء میں یہ لاٹری نکل آئی اور ہر ایک کو ساڑھے سات ہزار روپے ملے۔ آپؓ چونکہ احمدی ہوچکے تھے اسلئے اسی وقت حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فتویٰ دریافت کیا۔ یہ معلوم ہونے پر کہ یہ جوا ہے اور حرام ہے آپ نے ساری رقم چند ہی دن میں اشاعت دین اور غرباء کی امداد میں صرف کردی۔… آپؓ موصی تھے اور تحریک جدید کے پانچ ہزاری فوج کے ممبر بھی۔ آپ نے اپنا ایک مکان واقع ربوہ اپنی زندگی میں ہی صدر انجمن کے پاس ہبہ کردیا تھا اور اس سے پہلے ایک ٹرسٹ چھ ہزار روپے کا اپنی اہلیہ کی طرف سے بحق صدر انجمن قائم کرچکے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قلمی اور علمی لحاظ سے بھی حضرت خانصاحبؓ کو خدمت سلسلہ کی توفیق عطا فرمائی اور آپؓ نے بعض مبسوط مضامین شائع کرواکے مفت تقسیم فرمائے۔
7؍اگست 1958ء کو راولپنڈی میں آپؓ کی وفات ہوئی، سیلاب کی وجہ سے جنازہ ربوہ نہ پہنچایا جاسکا اور آپؓ کی امانتاً تدفین خوشاب میں عمل میں آئی۔
۔ …٭ …٭…٭…۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7؍فروری 1998ء میں شامل اشاعت مکرم محمد اشرف کاہلوں صاحب کے مضمون سے محض وہ حصہ پیش کیا جارہا ہے جو پہلے مضمون سے اضافہ ہے۔
حضرت منشی صاحبؓ جب دوران ملازمت شملہ میں قیام پذیر تھے تو 1900ء کے لگ بھگ آپ کے کانوں میں احمدیت کی باتیں پڑیں۔ آپ کی رہائش ایک ہوسٹل نما مکان میں تھی جس کے ایک کمرے میں دو تین احمدی بھی رہائش رکھتے تھے۔ اخراجات کی کفایت کی خاطر خرچ مشترک تھا۔ حضرت منشی صاحبؓ کے بقول ’’ایک احمدی احمدیت کا ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکتا‘‘ کے مصداق اس موقعہ پر احمدیت کا ذکر بھی چھڑ جاتا۔ آپ کو مطالعہ کا شوق تھا چنانچہ احمدیت کے متعلق بھی کتابیں پڑھنے کا آپ کو موقعہ میسر آیا۔ مخالفین کے اشتہارات میں دی گئی حضرت مسیح موعودؑ کی عبارات کا جب آپ نے اصل کتب سے موازنہ کیا تو حقیقت آشکار ہوگئی اور آپ کو حضرت اقدسؑ سے ایسی عقیدت پیدا ہوگئی کہ چار آنے ماہوار چندہ دینا بھی شروع کردیا۔ کچھ عرصہ بعد آپ کو خیال آیا کہ اگر یہ سلسلہ سچا ہے تو وہ قلیل رقم جو آپ نے جماعت کو دی ہے اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق اس دنیا میں بھی آپ کو بڑھا چڑھا کر لوٹائے گا۔ لیکن آپ حیران تھے کہ ایسا کیونکر ہوگا؟۔ 1901ء میں مردم شماری کے زمانہ میں آپ کو اپنے محکمہ کی جانب سے حفظانِ صحت کے بارے میں کچھ اعداد و شمار اکٹھے کرنے کا کام سونپا گیا اور آپ کے افسر نے آپ کی محنت اور سلیقہ شعاری سے متاثر ہوکر آپ کو ڈیڑھ صد روپے بطور انعام عطا کئے۔ کچھ عرصہ بعد آپ نے خواب میں حضرت مسیح موعودؑ سے شرفِ ملاقات حاصل کیا۔ حضورؑ نے پوچھا ’’برکت علی تم ہماری طرف کب آؤ گے؟‘‘۔ آپ نے عرض کی ’’اب آ ہی جاؤں گا‘‘۔ اس کے بعد 1901ء میں ہی آپ کو بیعت کی سعادت بھی حاصل ہوگئی۔
قبول احمدیت کے بعد حضرت منشی صاحبؓ کی زندگی میں انقلاب آگیا اور آپؓ جماعت شملہ کے فعال رکن بن گئے۔ مینارۃالمسیح کی تعمیر کے لئے حضرت مسیح موعودؑ کی اس تحریک پر کہ سو روپے ادا کرنے والوں کے نام مینارہ پر کندہ کئے جائیں گے، حضرت منشی صاحبؓ اور آپکی اہلیہ محترمہ نے بھی لبیک کہا۔ 1902ء میں ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ کا اجراء ہوا تو آپؓ نے رسالہ کے دس حصے خریدے اور بعد ازاں حضرت اقدسؑ کی تحریک پر یہ حصص امدادِ سلسلہ میں دیدیئے۔ تشحیذ الاذہان کی رکنیت بھی آپ نے حاصل کی۔ ایک بار آپ کو سات ہزار روپیہ لاٹری کا ملا تو حضرت اقدس علیہ السلام سے فتویٰ لینے کے بعد ساری رقم غرباء اور جماعتی تعلیمی اداروں میں تقسیم کردی۔ مالی قربانی کی روح ایسی پائی تھی کہ ایک خاص ماہ و سال میں آپؓ نے سترہ صد روپے چندہ دیا۔ جو اس عرصہ میں جماعت شملہ کے مجموعی چندہ کا تیسرا حصہ تھا۔ آپؓ اپنی اہلیہ سمیت تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں بھی شامل تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ کی ایک تحریک پر آپؓ نے ایک ماہ کی پنشن وقف کی۔ نیز چھ ہزار روپے مالیت کا ایک ٹرسٹ اشاعت دین کے فروغ کے لئے قائم کیا اور اپنا ذاتی مکان سلسلہ کے نام ہبہ کردیا۔
حضرت مسیح موعودؑ اور پھر خلافت سے آپؓ کو عشق تھا۔ پہلے شملہ جماعت کے جنرل سیکرٹری رہے اور 1912ء میں امراء کا تقرر ہوا تو امیر مقرر کئے گئے۔ شوریٰ میں نمائندگی کی سعادت بھی حاصل ہوتی رہی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد قادیان چلے آئے لیکن حضرت مصلح موعودؓ نے ملازمت جاری رکھنے کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ آپ واپس شملہ آئے اور اپنے کیس پر نظرثانی کے لئے محکمانہ کارروائی شروع کردی۔ ایک ہندو بھی اسی پوسٹ کا امیدوار تھا ۔ جب فیصلہ آپؓ کے حق میں ہوگیا تو وہ کہنے لگا ’’ہم جانتے تھے کہ آخر فیصلہ آپ کے حق میں ہوگا کیونکہ آپ کا پیر بہت زبردست ہے‘‘۔ پھر 1932ء میں آپؓ ریٹائر ہوکر مستقل قادیان چلے آئے اور مختلف حیثیتوںمیں بھرپور اعزازی خدمات سرانجام دیں۔ 7؍اگست 1958ء کو 86 سال کی عمر میں آپؓ نے وفات پائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں