حضرت خان بہادر غلام محمد خان گلگتی
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10؍مارچ 2005ء میں مکرم نصیر رعنا صاحب کے قلم سے اُن کے دادا حضرت خان بہادر غلام محمد خان گلگتیؓ کے تعارف و سیرت پر مضمون شامل اشاعت ہے۔
ہمارے خاندان کے ایک ہندو بزرگ رام داس اور ان کے بیٹے تلسی داس شہنشاہ اور نگزیب عالمگیر کے درباریوں میں سے تھے۔ وہ دہلی سے بادشاہ کے ساتھ سفر پر چلے تو بھیرہ میں ٹھہرے اور وہاں ایک بزرگ پیراعظم شاہ نوری سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرلیا۔ پیر نوری نے تلسی داس کا نام شیخ حسد رکھا۔ شیخ حسد نے دربارکو خیرباد کہہ دیا اور پیراعظم شاہ نوری کے ہی ہو کر رہ گئے۔ پیر نوری نے ان کے ذمہ لنگر خانے کا کام سونپ دیا اور عرصہ تک وہ یہ ذمہ داری نبھاتے رہے۔ اُن کی نسل میں غلام محمد (ولد میاں خدا بخش) پیدا ہوئے جو بعد میں خان بہادر کے خطاب سے بھی نوازے گئے۔
خان بہادر غلام محمد گلگتی بھیرہ میں 1877ء میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا تو غربت نے آن گھیرا۔ آپ کی والدہ محترمہ ایک باہمت غیرت مند خاتون تھیں۔ آپ کو تعلیم کا بے حد شوق دیکھ کر انہوں نے آپ کو سکول میں داخل کروادیا۔ آپ کے خاندان کے افراد کاغذ سے کھلونے بنانے کا کام کرتے تھے جو بہت معزز پیشہ سمجھا جاتا تھا اور اسے چینی آرٹ بھی کہا جاتا ہے۔ اگرچہ آپ کا اپنے پیشہ کو چھوڑ کر تعلیم حاصل کرنا رشتہ داروں کو پسند نہ آیا۔ مگر ماں نے ہر ظلم کا مقابلہ کرتے ہوئے آپ کو چوری چھپے سکول بھیجنا شروع کیا۔ آپ کلاس کے بہترین طلباء میں شمار ہوتے تھے۔ ایک روز رشتہ داروں کو علم ہوگیا اور انہوں نے سکول آکر آپ کو اتنا مارا کہ آپ کی حالت غیر ہوگئی۔ استاد نے بڑی مشکل سے آپ کو رہائی دلائی۔ پھر استاد کی سرپرستی میں آپ نمایاں کامیابیاں حاصل کرتے رہے لیکن رشتہ دار کسی طرح سے جینے نہیں دیتے تھے۔ چنانچہ ایک روز ماں کی اجازت سے آپ علم کے حصول کے لئے جموں (کشمیر) چلے گئے جہاں آپ کی ملاقات حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ سے ہوئی۔ اُن کو جب آپ کے حالات کا علم ہوا تو انہوں نے آپ کو جموں کے ایک سکول میں داخل کروا دیا اور عرصہ تک آپ کے سکول اور ہوسٹل کا خرچہ برداشت کرتے رہے۔ جب حضرت مولوی صاحبؓ کو وہاں سے واپس آنا پڑا تو آپ کی تعلیم کے اخراجات حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو دے آئے۔ ان دنوں آپ میٹرک میں تھے۔ جب مفتی صاحب واپس آنے لگے تو بقیہ رقم آپ کو ہی دے آئے۔ کچھ دنوں میں رقم ختم ہوگئی توآپ کو ہوسٹل سے نکال دیا گیا۔ آپ اپنا معمولی ساسامان اٹھا کر جنگل میں چلے گئے۔ وہاں جنگلی پھل کھاتے اور رات کو مسافروں کے لئے بنے ہوئے پڑاؤ کے قریب رات بسر کرتے۔ دن کی روشنی میں پڑھائی کرتے اور ساتھ ساتھ مشقت کر کے میٹرک کے داخلہ کے لئے رقم جمع کرتے رہے۔
یہ زمانہ انتہائی مصائب کا تھا کہ آپ نے ملازمت کے لئے درخواست دی۔ اس دوران میٹرک کا امتحان نمایاں نمبروں کے ساتھ پاس کر لیا تو آپ کو ملازمت مل گئی۔ حضرت مولوی صاحب سے اگرچہ آپ کا رابطہ رہا لیکن آپ نے اپنے مصائب کا اُن سے کبھی ذکر نہیں کیا اور نہ ہی امداد کے لئے درخواست کی، صرف دعا کی درخواست کرکے اپنی تعلیم کے بارے میں آگاہ کرتے رہے۔ جب آپ کی گلگت میں خزانچی (منشی) کی حیثیت سے تقرری ہوئی تو حضرت مولوی صاحبؓ بھیرہ میں تھے۔ جب آپ کو پہلی تنخواہ ملی تو آپ نے کچھ رقم والدہ کو ایک پیار اور تسلی بھرے خط کے ساتھ اُن کی معرفت روانہ کی۔ کچھ دنوں بعد حضرت مولوی صاحبؓ کا خط موصول ہوا جس میں آپ کو نصائح کرنے کے بعد یہ بھی لکھا تھا کہ جب وہ رقم لے کر آپ کے گھر گئے اس وقت آپ کی والدہ کا جنازہ گھر سے نکل رہا تھا۔ یہ خبر ان پر بجلی بن کر گری اور شدت جذبات سے بے قابو ہو کر آپ بھیرہ روانہ ہوگئے۔ بھیرہ میں حضرت مولوی صاحبؓ نے آپ کو بہت دلاسہ دیا۔ وہ حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کر چکے تھے۔ چنانچہ آپ نے بھی 1891ء میں بیعت کے لئے خط لکھ دیا۔ 1892ء میں سفر سیالکوٹ کے موقع پر زیارت حضرت اقدسؑ کا شرف حاصل کیا اور قادیان بھی گئے۔
1898ء میں آپ کی شادی ہوئی تو آپ اپنی اہلیہ خدیجہ بی بی کو لے کر قادیان گئے جنہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کا چہرہ مبارک دیکھتے ہی بیعت کرلی۔ ان کی بیعت کے بعد خاندان کے افراد سخت مخالف ہوئے۔ لیکن وہ مضبوطی سے احمدیت پر قائم رہیں اور رشتہ داروں کو دعوت الی اللہ کرتی رہیں۔
گلگت میں آپ اکیلے احمدی تھے۔ بعد ازاں کچھ اور احمدی بھی آکر آباد ہوگئے تو نماز باجماعت کا اہتمام اپنے گھر پر کیا۔ دعوت الی اللہ بھی خوب کرتے۔ گھوڑوں اور خچروں پر طویل سفر کرکے قادیان بھی جایا کرتے۔
ایک مرتبہ چند روز قادیان میں قیام کے بعد حضرت مسیح موعودؑ سے اجازت طلب کی تو ارشاد ہوا: ’’ابھی اَور ٹھہریں‘‘۔ چند روز بعد پھر اجازت طلب کی تو پھر یہی فرمایا۔ اس دوران آپ کو کثرت سے دعائیں کرنے کا موقع ملا اور ایک رات خواب میں دعا کی قبولیت کی خبر بھی دیدی گئی۔ اس کے دو روز بعد پھر حضورؑ سے اجازت طلب کی تو آپؑ نے فرمایا کہ ہاں اب اجازت ہے۔
خان بہادر صاحب دنیاوی لحاظ سے ایک نہایت اعلیٰ عہدہ پر فائز تھے اور پولیٹیکل ایجنٹ ہونے کے علاوہ بھی کئی عہدے آپ کے پاس تھے لیکن آپ انتہائی عاجزی سے قادیان میں قیام کرتے۔ گلگت میں تمام جماعتی اخبارات و رسائل اور کتب باقاعدگی سے منگواتے تھے۔ انگریز حکومت آپ کی دیانت، شرافت اور محنت سے اتنی متأثر تھی کہ جب گلگت کے نواحی علاقہ یاسین کا راجہ چترال میں مارا گیا تو حکومت نے خان بہادر صاحب کو یاسین کا حکمران بنا دیا۔ آپ نے دو سال تک وہاں حکمرانی کی اور پھر اس علاقہ کے پہلے راجہ کو جسے جلا وطن کر دیا گیا تھا آپ نے اُسے بلا کر عنان حکومت اس کے حوالے کی اور واپس گلگت چلے گئے۔ اگرچہ گلگت اور یاسین میں حکومت نے تمام تر اختیارات آپ کو سونپ دئیے تھے اور آپ اُس دَور کے راجوں کی طرح دربار لگاتے، شکایات کے فیصلے کرتے اور مجرموں کو سزا دیتے۔ آپ کی رہائش قلعہ میں تھی۔ یاسین کے لوگ آپ کے حسن سلوک کے مداح تھے۔ جب آپ یاسین چھوڑ کر گلگت جانے لگے تو لوگ پھوٹ پھوٹ کر روئے اور کہا کہ آپ کے جانے سے ہم یتیم ہوجائیں گے۔
آپؓ جوانی میں بڑے دلیر اور بہادر تھے۔ چنانچہ 1916ء میں مکرم ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم کی شادی پر ایک خطرہ کے پیش نظر حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے آپؓ کو بارات کے ہمراہ بھیجا۔ آپ کے پاس بندوق بھی تھی اور دلیری بھی۔ ایک مرتبہ گلگت سے قادیان آئے تو حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے لئے تحائف میں ایک گھوڑا بھی لائے۔ حضورؓ نے مسکرا کر فرمایا کہ مجھے پہلے ہی خواب میں بتا دیا گیا تھا کہ کوئی شخص تمہارے لئے گھوڑا لارہا ہے جس پر میاں بشیر احمد صاحبؓ بہتر سواری کر سکیں گے۔
آپؓ کی اعلیٰ کارکردگی پر یکم جنوری 1918ء کو آپ کو ’’خان صاحب‘‘ کا خطاب وائسرائے و گورنر جنرل آف انڈیا کی طرف سے دیا گیا۔ دوسرا خطاب آپ کو وائسرائے اور گورنرجنرل انڈیا کی طرف سے ’’خان بہادر‘‘ کا جنوری 1924ء میں دیا گیا۔ ایک اور خطاب غالباً آپ کو رؤسا دہلی دربار کا دیا گیا۔ پھر آپ کی درخواست پر حکومت نے آپ کو لداخ میں پولیٹیکل ایجنٹ تعینات کر دیا۔ اسی طرح آپ گیس کے بھی کافی عرصہ حکمران رہے۔ آپ نے گلگت میں قیام کے دوران سلسلہ احمدیہ کی ایک بڑی لائبریری قائم کی۔ وہاں احمدیوں کی تعداد میں بھی کافی اضافہ ہوگیا تھا۔ جب آپ گلگت سے لداخ جانے لگے تو گلگت کے لوگ بضد ہوگئے کہ ہم نہیں جانے دیں گے۔ آپؓ کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ لداخ میں بھی پُرتپاک خیر مقدم ہوا۔ انہوں نے آپؓ کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا۔ لداخ میں بھی آپؓ کی دعوت الی اللہ جاری رہی۔ دورہ میں جس ڈاک بنگلہ میں پڑاؤ ہوتا سلسلہ کی کتب وہاں چھوڑ آتے۔ آپؓ نے لداخ میں سیرت النبیﷺ کے جلسے بھی شروع کئے۔ آپؓ نے حضرت عیسیٰؑ کی کشمیر آمد کے بارہ میں بھی تحقیق کی اور وہاں کی چٹانوں پر کندہ عبارتوں کی تصاویر لے کر قادیان بھجوائیں۔ آپؓ بیان کرتے تھے کہ لداخ میں ایک چشمہ ہے جس کے کنارے ایک درخت ہے اس کے بارہ میں مشہور ہے کہ یہاں پر ایک اوتار نے مسواک کی تھی اور پھر یہ مسواک انہوں نے زمین میں دبادی تھی جو کہ ایک درخت کی شکل میں موجود ہے۔ اس درخت کا نام مریم کا بیٹا ہے۔
ریٹائرڈ ہونے کے بعد آپ نے مستقل رہائش قادیان میں رکھ لی اور وہاں کافی جائیداد بشمول مکانات اور دوکانیں بنالیں۔ پاکستان بننے کے بعد بھیرہ آگئے۔ بے حد مخلص احمدی تھے۔ ہمسایوں اور رشتہ داروں سے حسن سلوک کرتے تھے۔ سادہ مزاج اور سادگی پسند تھے۔ بھیرہ میں ہی 26؍جون 1956ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی۔