حضرت خلیفہ نورالدین صاحب جمونیؓ
ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ دسمبر 2002ء میں حضرت خلیفہ نورالدین صاحب جمونیؓ کے بارہ میں ایک مضمون مکرم مرزا خلیل احمد قمر صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
آپؓ 1852ء یا 1851ء میں پیدا ہوئے۔ آپؓ کے والد کا نام معظم الدین تھا جو جلال پور جٹاں ضلع گجرات کے امام مسجد تھے۔ بعد میں وہ اہل حدیث ہوگئے اور نام بدل کر محمد عبداللہ رکھ لیا۔ وہ بہت عالم اور بزرگ انسان تھے۔ انہی سے آپؓ نے قرآن کریم پڑھا اور دیگر ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ پھر آپؓ کو سہارنپور بھیج دیا گیا جہاں سے آپؓ حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ کے پاس پاپیادہ بھیرہ پہنچ گئے۔ آپؓ نے ابتدائی عمر میں مولوی غلام رسول صاحب آف قلعہ میاں لنگے کی بیعت کی تھی اور آپؓ ابتدا سے ہی سعید فطرت وجود تھے۔ بھیرہ پہنچے تو حضرت مولوی صاحبؓ نے آپ کو اہل حدیثوں کی مسجد (حکیماں والی) کا امام مقرر کردیا اور آپ کا کھانا اپنے گھر پر مقرر کرلیا۔ حدیث اور طب کی تعلیم حضورؓ خود آپ کو دیا کرتے تھے۔ دس بارہ سال آپ وہیں حضورؓ کے پاس رہے اور گھر کے ایک فرد کی حیثیت حاصل کرلی۔ بھیرہ میں ہی حضورؓ نے آپ کی شادی کروادی۔ بعد ازاں جب حضورؓ ریاست جموں میں شاہی طبیب کے طور پر تشریف لے گئے تو آپ بھی جموں آگئے۔
جموں میں مہاراجہ نے اذان کہنے پر پابندی لگا رکھی تھی اور سخت سزا مقرر تھی۔ لیکن آپ وہاں اذان دیتے اور پھر حضرت مولوی صاحبؓ کے ساتھ نماز ادا کرتے۔ امامت وہاں بھی آپ ہی کرواتے۔ ایک روز آپ نے اونچی آواز سے اذان کہہ دی تو مہاراجہ نے حضرت مولوی صاحبؓ کو بلاکر کہا کہ مولوی صاحب! آپ کے خلیفہ نے اذان کہی ہے۔ اذان میں حیّی علی الصلوٰۃ اور حیّی علی الفلاح کے الفاظ آتے ہیں۔ جو خدا کا حکم سن کر بھی نماز نہ پڑھے وہ گنہگار ہوتا ہے، ہماری رعایا غریب اور کمزور ہے، اگر یہ اذان سن کر بھی نماز نہیں پڑھے گی تو ان پر خدا کا عذاب نازل ہوگا۔ اس لئے ہم نے اذان دینا ہی بند کر رکھا ہے۔
اس واقعہ کے بعد لوگوں نے آپ کو خلیفہ کہنا شروع کردیا جو آپ کے نام کا حصہ بن گیا۔
حضرت خلیفہ نورالدین جمونی صاحب بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیں جموں سے پیدل کشمیر گیا تو راستہ میں ایک جنگل میں اللّٰھُمّ اِنّی اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحُزُن والی دعا نہایت زاری سے پڑھی۔ اس کے بعد کوئی کاروبار نہ کرنے کے باوجود غیب سے ہزاروں روپے میرے پاس آئے۔ مجھے حضرت مولوی صاحبؓ نے عربی، فارسی کا ترجمان بھی مقرر فرمایا۔ کچھ وقت سری نگر میں مردم شماری کے محکمہ میں بھی ملازمت کی۔ اسی دوران مَیں نے حج کی سعادت بھی حاصل کی لیکن حاجی نہیں کہلوایا۔
جب بھی کوئی عالم فوت ہوتا تو اس کی اطلاع حضرت مولوی صاحبؓ آپ کو دیا کرتے۔ آپ کہتے کہ آپ صرف مرنے والوں کی خبر دیتے ہیں، کسی بزرگ کے پیدا ہونے کی خبر نہیں دیتے۔ ایک دن آپؓ نے خوش ہوکر مجھے مخاطب فرمایا کہ آج تمہیں ایک عالم کے پیدا ہونے کی خبر سناتا ہوں جو قادیان میں پیدا ہوا ہے۔ پھر 1885ء میں حضرت مولوی صاحبؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت کے لئے قادیان کا سفر کیا اور حضورؑ سے اپنی ایک خواب بیان کی جس میں خلیفہ نورالدین صاحب کا بھی ذکر ہے۔ جنوری 1888ء میں جب حضور علیہ السلام حضرت مولوی صاحبؓ کی عیادت کیلئے جموں تشریف لائے تو آپ کے کمرہ میں ہی قیام فرمایا۔
اگرچہ خلیفہ نورالدین صاحب نے بیعت کی سعادت 27؍دسمبر 1891ء کو حاصل کی لیکن اس سے قبل آپ نے حضرت مولوی صاحبؓ کے ارشاد پر عبدالواحد غزنوی ابن حضرت مولوی عبداللہ غزنوی صاحب کو ایک سال سے زائد تبلیغ کی لیکن وہ رضامند نہ ہوئے تو آپؓ نے خود بیعت کرلی۔ پہلے جلسہ سالانہ میں آپؓ شامل ہوئے اور آپؓ کا نام حضورؑ نے اپنی کتاب ’’نشان آسمانی‘‘ میں درج فرمایا ہے۔ 1892ء میں امرتسر میں مباحثہ ہوا جس کی روئیداد ’’جنگ مقدس‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ حضورؑ نے اس مباحثہ کے طے کرنے کیلئے آپؓ کو بھی بھجوایا اور اس موقع پر پڑھے جانے والے پرچوں کے سوالات کے جوابات لکھنے کی بھی توفیق پائی۔
حضرت خلیفہ صاحبؓ کی دوسری بیوی کے ہاں اولاد ہوکر فوت ہوجاتی تھی۔ وہ حضورؑ کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کیا کرتی تھی۔ چنانچہ حضورؑ کی دعا سے ایک لڑکا عبدالرحیم پیدا ہوا۔
جلسہ مذاہب عالم 1896ء میں آپؓ بھی شامل ہوئے اور جب مضمون لکھا جا رہا تھا توآپؓ کو بھی مضمون کو نقل کرنے کی توفیق ملی۔
آپؓ کو حضرت مسیح ناصریؑ کی قبر کی دریافت کے حیرت انگیز انکشاف کا اعزاز حاصل ہوا اور حضورؑ کے ارشاد پر تحقیق کی اور 560؍علماء کی شہادتیں بھی اکٹھی کیں۔ حضورؑ نے آپؓ کی خدمات کا اعتراف اپنی کتاب ’’تحفہ گولڑویہ‘‘ میں فرمایا ہے اور ملفوظات جلد اوّل میں بھی آپؓ کا ذکر ملتا ہے۔
آپؓ بہت خوش خط تھے۔ آپؓ کو حضورؑ کی کئی کتب کے مسودوں کو صاف کرکے خدمت اقدسؑ میں پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ حضورؑ کا منظوم کلام ’’درّثمین‘‘ سب سے پہلے شائع کرنے کی توفیق بھی آپؓ کو ملی۔ مالی قربانی میں اپنی حیثیت سے بڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ 1905ء میں نظام وصیت کا اجراء ہوا تو آپؓ بھی اس میں شامل ہوگئے۔ آپؓ کا نمبر 389؍ ہے۔ حضورؑ نے آپؓ کے مالی جہاد کا ذکر بھی اپنے اشتہار میں کیا ہے۔ حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب کی روایت ہے کہ آپؓ نے پانچ پانچ سو روپے بھی بطور نذرانہ پیش کئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے موقعہ پر آپؓ جنازہ کے ساتھ لاہور سے قادیان تشریف لائے۔ خلافت اولیٰ کا سارا عرصہ کمال اطاعت سے گزارا۔ حضرت مصلح موعودؓ سے آپؓ بچپن سے ہی بہت محبت کرتے تھے اور بعض رؤیا و کشوف میں آپؓ کو حضورؓ کے بارہ میں خبر بھی دی گئی تھی۔ حضورؓ نے بھی کئی خطبات اور تقاریر میں آپ کا ذکر فرمایا ہے۔
آپؓ جماعت احمدیہ جموں کے روح رواں تھے۔ 2؍ستمبر 1942ء کو جموں میں وفات پائی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے نماز جنازہ پڑھائی، نعش کو کندھا دیا اور بہشتی مقبرہ تک ساتھ تشریف لے گئے۔
حضرت خلیفہ صاحبؓ نے چار شادیاں کیں۔ تین بیویوں سے دو بیٹے اور دو بیٹیاں پیدا ہوئے۔