حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کا عشق قرآن
حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب خلیفۃالمسیح الاولؓ فرماتے ہیں:
’’مجھے قرآن کے برابر پیاری کوئی کتاب نہیں ملی اس سے بڑھ کر کوئی کتاب پسند نہیں ، قرآن (ہی) کافی کتاب ہے‘‘۔
نیز فرمایا ’’میں نے خود بلاواسطہ حضرت علیؓ سے قرآن کے بعض معارف سیکھے ہیں‘‘۔
حضورؓ فرماتے ہیں’’میں نے دعا کی کہ وہ مجھے ایسی دعا سکھادے جو ایک جامع دعا ہو ۔ پس یہ دعا میرے دل میں ڈالی گئی کہ مضطر ہوکر جو کچھ بھی مانگوں وہ مجھے دیدے۔ اب اس دعا کے ذریعے سے خدا تعالیٰ نے مجھے قرآن کی محبت دی‘‘۔ آپؓاپنی قادیان ہجرت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’صرف قرآن شریف سمجھنے کے لئے اللہ واحد کی تڑپ مجھے یہاں لائی‘‘۔
حضورؓ اپنے زمانہ طالبعلمی میں بھوپال میں منشی جمال الدین صاحب کے درس میں گئے اور ایک ہی سوال کے نتیجہ میں منشی صاحب پر آپؓ کا فہم قرآن اس قدر ظاہر ہوا کہ انہوں نے آپ کو درس دینے کے لئے بٹھادیا اور خود شاگردوں میں بیٹھ گئے۔
جب حضورؓ نے حضرت مصلح موعودؓ کو بچپن میں قرآن شریف اور اس کی تفسیر کے طور پر بخاری شریف پڑھائی تو فرمایا ’’لو میاں سب دنیا کے علوم آگئے اس کے سوا جو کچھ ہے یا زائد یا ان کی تشریح ہے‘‘۔ حضورؓ ایک موقع پر فرماتے ہیں ’’میرے پاس کوئی ایسا چاقو نہیں جس سے میں اپنا دل چیر کر تمہیں دکھلا سکوں کہ مجھے قرآن سے کس قدر محبت اور پیار ہے‘‘۔ حضورؓ کے عشق قرآن پر ایک مضمون مکرم محمود مجیب اصغر صاحب کے قلم سے ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ مئی 1998ء کی زینت ہے۔
جب حضورؓ مہاراجہ جموں کے شاہی طبیب تھے تو آپؓ نے بعض خدمتگاروں کو جو سب ہندو تھے قرآن سنانا شروع کیا۔ دو روز بعد خزانہ کا افسر رتی رام کہنے لگا دیکھو ان کو قرآن شریف سنانے سے روکو ورنہ میںمسلمان ہو جاؤں گا۔
جموں میں ہی آپؓ کو زخم آگیا اور ایک مہینہ کا سفر درپیش ہونے کی وجہ سے پالکی کا انتظام کیا گیا۔آپؓ نے خدا تعالیٰ کے شکریہ کے طور پر اس سفر کے دوران قرآن شریف کی تلاوت شروع کی اور چودہ پارے حفظ کرلئے۔ بعد میں بقیہ پارے یاد کرکے پورا قرآن کریم نہایت مختصر وقت میں حفظ کرلیا۔ آپؓ نے یہ دعویٰ بھی فرمایا ’’مجھ سے خدا نے وعدہ کیا ہے کہ میں تمہیں دشمن کے مقابل پر اس کے معنے سمجھاؤں گا‘‘۔
چنانچہ جب دھرم پال نے اپنی کتاب میں قرآن شریف پر اعتراضات کئے تو حضورؓ کو دو سجدوں کے درمیان توجہ کرنے پر حروف مقطعات کا وسیع علم دیا گیا ۔قادیان ہجرت فرمانے کے بعد آپؓ کا روزانہ کا معمول تھا کہ صبح سویرے بیماروں کو دیکھتے پھر طلبہ کو درس حدیث و طبی کتب دیتے، مثنوی شریف اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا درس بھی گاہے دیتے۔ بعد نماز عصر روزانہ درس قرآن شریف دیا کرتے اور عموماً صبح کے وقت عورتوں میں بھی درس قرآن شریف دیا کرتے۔ اوائل زمانہ میں حضرت مسیح موعودؑ بھی کبھی کبھی آپؓ کے درس میں شامل ہوا کرتے تھے۔
حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحبؓ کا بیان ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے بار بار شاید پچاس مرتبہ مجھے فرمایا کہ مولوی نورالدین صاحب کی تفسیرِ قرآن آسمانی تفسیر ہے۔ ان سے قرآن پڑھا کرو اور اگر تم نے دو تین سپارے بھی سنے یا پڑھے تو تم کو قرآن شریف سمجھنے کا مادہ اور تفسیر کا ملکہ پیدا ہوجائے گا۔
حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ بھی اپنی ایک رؤیا بیان فرماتے ہیں کہ ایک سلسلہ مکانات کے اندر جب میں ستر مکانات عبور کرکے آخر ایک مکان میں پہنچا جو بقعہ نور بنا ہوا تھا تو دیکھا کہ ایک بڑی میز پر بہت سے انبیاء کے صحیفے پڑے ہیں جو لوگوں نے محرف و مبدل کردئے ہیں۔ اس میز کے ساتھ ایک عظیم الشان کرسی پر سیدنا حضرت نورالدین خلیفۃالمسیح الاولؓ تشریف فرما ہیںاور صحیفوں کو سامنے رکھ کر قرآن کریم کے ذریعے سے ان اغلاط کو درست کر رہے ہیں جو بوجہ تحریف ان میں داخل ہوگئی ہیں۔