حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی نظر میں حضرت المصلح الموعودؓ کا مقام

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ہوشیارپور میں چالیس روز تک تنہا گریہ و زاری کرتے ہوئے جب خدا تعالیٰ سے ایک معجزہ کی درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے عظیم الشان صفات کے حامل ایک فرزند کی ولادت کی خبر دی جسے آپؑ نے 20؍فروری 1886ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ شائع فرمادیا۔ 12؍جنوری 1889ء کو وہ موعود لڑکا آپؑ کو عطا ہوا اور اِس بیٹے کی پیدائش کے چند ہی گھنٹے بعد حضورؑ نے ایک اشتہار میں اپنے محبوں کو بیعت کی دعوت دی اور اس طرح گویا جماعت احمدیہ کا قیام بھی عمل میں آگیا۔
حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی زندگی میں اس پسرموعود کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ فرمائی اور اس کے لئے بے شمار دعائیں کیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس بیٹے کو کم عمری میں ہی اپنے رویاء کشوف اور الہامات سے نوازا جنہیں حضرت مسیح موعودؑ نہ صرف غور سے سنتے بلکہ اپنی کاپی میں بھی درج فرماتے۔ آپؑ نے اپنی متعدد کتب میں اس پسرموعود کا نام لے کر ذکر بھی فرمایا اور جنوری 1906ء میں جب نظام وصیت کا نظم و نسق چلانے کیلئے صدرانجمن احمدیہ کا قیام عمل میں آیا تو آپؑ نے اپنے سولہ سالہ بیٹے کو مجلس معتمدین میں بطور ممبر نامزد فرمایا۔
اللہ تعالیٰ نے پسرموعود کو حضرت اقدسؑ کی وفات کے بارہ میں الہاماً اس مصرع میں بتادیا تھا ’’راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو‘‘۔ حضورؑ کی وفات پر انہوں نے حضورؑ کی نعش مبارک کے سرہانے کھڑے ہوکر یہ عہد کیا کہ اگر سارے لوگ بھی آپؑ کو چھوڑ دیں گے اور مَیں اکیلا رہ جاؤں گا تو مَیں اکیلا ہی ساری دنیا کا مقابلہ کروں گا اور کسی مخالفت اور دشمنی کی پرواہ نہیں کروں گا۔
حضرت مولانا حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ جب خلافت پر متمکن ہوئے تو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کو، جو پہلے سے آپؓ کے شاگرد تھے، اس طرح اپنی آغوشِ تربیت میں لے لیا کہ اپنی خداداد فراست اور اپنے طرز عمل سے پوری جماعت کو یہ باور کرادیا کہ پیشگوئی مصلح موعود کے مصداق یہی ہیں۔ اسبارہ میں روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16؍فروری 2000ء میں مکرم مرزا خلیل احمد قمر صاحب کے مضمون میں تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے خلافت پر متمکن ہونے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں فرمایا: ’’مَیں نے اس فکر میں کئی دن گزارے کہ ہماری حالت حضرت صاحب کے بعد کیا ہوگی۔ اس لئے مَیں کوشش کرتا رہا کہ میاں محمود کی تعلیم اس درجہ تک پہنچ جائے‘‘۔ حضورؓ نے حضرت میاں صاحبؓ کو اپنی جگہ صدرانجمن احمدیہ کا صدر بھی نامزد فرمایا چنانچہ 30؍مئی 1908ء کو صدرانجمن کا اجلاس حضرت میاں صاحبؓ کی زیرصدارت منعقد ہوا۔
حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعدمخالفین کے اعتراضات کے جوابات کئی احمدی علماء نے دیئے۔ حضرت صاحبزادہ صاحبؓ نے بھی ایک مبسوط مضمون رقم کیا جس پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ نے مولوی محمد علی صاحب سے فرمایا:
’’مسیح موعودؑ کی وفات پر مخالفین نے جو اعتراض کئے ہیں، ان کے جواب میں تم نے بھی لکھا ہے اور مَیں نے بھی مگر میاں ہم دونوں سے بڑھ گیا ہے‘‘۔
پھر حضورؓ کے ارشاد پر یہ مضمون ایک دیدہ زیب کتاب کی شکل میں شائع ہوا جس کا نام حضورؓ نے الہام الٰہی سے ’’صادقوں کی روشنی کو کون دور کرسکتا ہے‘‘ تجویز فرمایا۔ اس کتاب کے آخر پر رسالہ الوصیت بھی لگادیا گیا تھا۔ یہ کتاب حضرت میاں صاحبؓ کی پہلی تصنیف تھی اور حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ نے یہ کتاب مولوی محمد حسین بٹالوی کو بھجوائی کیونکہ اُس نے کہا تھا کہ مرزا صاحب کی اولاد اچھی نہیں۔ آپؓ نے کتاب کے ساتھ لکھوایا کہ حضرت مرزا صاحب کی اولاد میں سے ایک نے تو یہ کتاب لکھی ہے جو مَیں تمہاری طرف بھیجتا ہوں، تمہاری اولاد میں سے کسی نے کوئی کتاب لکھی ہو تو مجھے بھیج دو۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے جولائی 1910ء میں ملتان کا سفر اختیار فرمایا تو اپنی غیرموجودگی میں حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کو امیر مقامی مقرر فرمایا۔ چنانچہ آپؓ نے 29؍جولائی کو مسجد اقصیٰ میں پہلا خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ پھر جب حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کو بیماری کی وجہ سے خطبہ دینے میں دقّت محسوس ہونے لگی تو انہوں نے حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب ہی کو امام و خطیب مقرر فرمایا اور آپؓ کے مقتدی کی حیثیت سے نماز بھی پڑھی۔
حضرت خلیفہ اوّلؓ نے گھوڑے سے گرنے کے بعد 19؍جنوری 1911ء کی رات ایک وصیت رقم فرمائی جس کے بارہ میں مولوی محمد علی صاحب اپنی کتاب ’’حقیقت اختلاف‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’جو وصیت آپؓ نے لکھوائی تھی اور جو بند کرکے ایک خاص معتبر کے سپرد کی تھی، اس کے متعلق مجھے معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ اس میں آپؓ نے اپنے بعد خلیفہ ہونے کیلئے میاں صاحب کا نام لکھا تھا‘‘۔
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ لکھتے ہیں کہ حضورؓ نے کاغذ پر صرف دو لفظ لکھے ’’خلیفہ محمود‘‘ اور اپنے ایک شاگرد (شیخ تیمور صاحب ایم۔اے) کو وہ کاغذ دیا کہ لفافہ بند کرکے اپنے پاس رکھو۔ بعد میں صحت ہوجانے پر آپؓ نے وہ لفافہ لے کر پھاڑ دیا۔
25؍ستمبر 1911ء کو عیدالفطر کی نماز حضورؓ کے ارشاد کے ماتحت حضرت میاں صاحبؓ نے پڑھائی اور خطبہ میں یہ نکتہ بیان فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے ابتلاء سے بچنے کیلئے عید کے دن میں چھٹی نماز کا اضافہ کردیا ہے۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ جب مال و دولت اور آرام و راحت حاصل ہو تو عبادت زیادہ کرو‘‘۔ پھر حضورؓ نے لاٹھی کے سہارے کھڑے ہوکر ایک وعظ فرمایا اور ضعف کے باوجود ایک جلالی تقریر میں فرمایا: ’’مَیں اس خطبہ کی بہت ہی قدر کرتا ہوں اور مَیں یقینا کہتا ہوں کہ وہ خطبہ جمعہ کا عجیب سے عجیب نکات معرفت اپنے اندر رکھتا ہے۔ محبت سے شریف الطبع لوگوں کو اس سے بہت فائدے ہوں گے مگر بعض پلید الطبع گندے اور شریر ہوتے ہیں جو ایسی پاک باتوں سے بھی فائدہ نہیں اٹھاتے‘‘۔
14؍جون 1912ء کو حضورؓ نے احمدیہ بلڈنگ لاہور کی مسجد میں فرمایا: ’’مرزا صاحب کی اولاد دل سے میری فدائی ہے۔ مَیں سچ کہتا ہوں کہ جتنی فرمانبرداری میرا پیارا محمود، بشیر، شریف، نواب ناصر، نواب محمد علی خان کرتا ہے تم میں سے ایک بھی نظر نہیں آتا۔ مَیں کسی لحاظ سے نہیں کہتا بلکہ مَیں ایک امر واقعہ کا اعلان کرتا ہوں، ان کو خدا کی رضا کے لئے محبت ہے۔ میاں محمود بالغ ہے۔ اس سے پوچھ لو کہ وہ سچا فرمانبردار ہے۔ ہاں ایک معترض کہہ سکتا ہے کہ سچا فرمانبردار نہیں۔ مگر نہیں، مَیں خوب جانتا ہوں کہ وہ میرا سچا فرمانبردار ہے اور ایسا فرمانبردار کہ تم میں سے ایک بھی نہیں۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے فرزند میاں عبدالوہاب عمر صاحب اپنے مضمون میں لکھتے ہیںکہ حضورؓ فرماتے تھے: ’’محمود کی خواہ کوئی کتنی شکایتیں ہمارے پاس کرے۔ ہمیں اس کی پرواہ نہیں۔ ہمیں تو اس میں وہ چیز نظر آتی ہے جو اُن کو نظر نہیں آتی۔ یہ لڑکا بہت بڑا بنے گا اور اس سے خدا تعالیٰ عظیم الشان کام لے گا‘‘۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی وفات سے چھ ماہ قبل حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ مصنف قاعدہ یسرناالقرآن نے آپؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے آج حضرت اقدسؑ کے اشتہارات کو پڑھ کر پتہ چل گیا ہے کہ پسر موعود میاں صاحب ہی ہیں۔ اس پر حضورؓ نے فرمایا: ’’ہمیں تو پہلے ہی سے معلوم ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہم میاں صاحب کے ساتھ کس خاص طرز سے ملا کرتے ہیں اور اُن کا ادب کرتے ہیں‘‘۔ پیر صاحب موصوف نے یہی الفاظ لکھ کر تصدیق کے لئے پیش کئے تو حضورؓ نے ان پر تحریر فرمایا: ’’یہ لفظ مَیں نے برادرم پیر منظور محمد سے کہے ہیں‘‘۔ حضرت پیر صاحبؓ فرماتے ہیں: ’’11؍ستمبر 1913ء کی شام کے بعد حضرت خلیفۃالمسیح گھر میں چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ مَیں پاؤں سہلانے لگ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد بغیر کسی گفتگو اور تذکرہ کے خودبخود فرمایا: ابھی یہ مضمون شائع نہ کرنا، جب مخالفت ہو اُس وقت شائع کرنا‘‘۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ نے ایک مرتبہ شیخ عبدالرحمن صاحب مصری لاہوری کو جو اُس وقت مصر میں تعلیم حاصل کر رہے تھے، تحریر فرمایا: ’’تمہیں وہاں کسی شخص سے قرآن پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ جب تم واپس قادیان آؤگے تو ہمارا علمِ قرآن پہلے سے بھی انشاء اللہ بڑھا ہوا ہوگا اور اگر ہم نہ ہوئے تو میاں محمود سے قرآن پڑھ لینا‘‘۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’حضرت خلیفہ اولؓ نے فرمایا تھا کہ احمدیت کی اشاعت اکناف عالم میں میاں صاحب کے زمانہ میں ہوگی‘‘۔
حضرت خلیفہ اوّلؓ نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ سے فرمایا کہ اگر میری زندگی میں قرآن ختم نہ ہوا تو بعد ازاں میاں صاحب سے پڑھ لینا۔
ایک دفعہ مسجد مبارک میں کسی نے نماز کے بعد حضورؓ سے مصافحہ کیا تو آپؓ نے فرمایا: میاں صاحب سے مصافحہ کرلو۔ شاید ہمارے بعد اُن کے ہاتھ پر تمہیں بیعت کرنی پڑے۔
محترم قاضی رحمت اللہ صاحب نے حضرت خلیفۃالمسیح اوّلؓ کی خدمت میں اپنا ایک رؤیا لکھا جس پر آپؓ نے تحریر فرمایا: ’’میرے بعد میاں محمود احمد صاحب خلیفہ ہوں گے‘‘۔
جنوری 1914ء میں اپنی وفات سے قریباً دو ماہ قبل حضورؓ نے ایک بھری مجلس میں فرمایا: ’’مسند احمد حدیث کی ایک معتبر کتاب ہے، بخاری کا درجہ رکھتی ہے۔ مگر افسوس کہ اس میں بعض غیرمعتبر روایات امام احمد بن حنبل کے ایک شاگرد اور ان کے بیٹے کی طرف سے شامل ہوگئی ہیں جو اس پایہ کی نہیں ہیں۔ میرا دل چاہتا تھا کہ اصل کتاب کو الگ کرلیا جاتا مگر افسوس کہ یہ کام میرے وقت میں نہیں ہوا، اب شاید میاں کے وقت میں ہوجائے‘‘۔ اتنے میں حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحبؓ وہاں آگئے تو حضورؓ نے یہی بات اُن کے سامنے پھر دہرائی۔
حضرت غلام حسین صاحبؓ (آف عارف والا ضلع ساہیوال) نے اپنی دو خوابیں لکھ کر حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل کو بھیج دیں جن پر حضورؓ نے تحریر فرمایا: ’’آپکی خوابیں مبارک ہیں‘‘۔ بعد میں جب حضرت غلام حسین صاحبؓ جلسہ پر قادیان آئے تو حضورؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ جو خوابیں مَیں نے آپؓ کو تحریر کی تھیں، اُن سے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضورؓ کے بعد میاں محمود احمد صاحب خلیفہ ہوں گے۔ حضورؓ نے فرمایا کہ اسی لئے تو اُس کی ابھی سے مخالفت شروع ہوگئی ہے۔ پھر یہ پوچھنے پر کہ کیا سچے کا نشان بھی یہی ہوتا ہے کہ اُس کی مخالفت ہو، حضورؓ نے فرمایا: ہاں سچے کا یہی نشان ہوتا ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی وفات کے بعد جب حضرت سید محمد احسن امروہی صاحبؓ نے حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ کا نام خلیفہ کیلئے پیش فرمایا تو آپؓ نے لوگوں کو توقف کیلئے فرمایا لیکن ہر طرف سے بیعت لینے کا اصرار بڑھتا رہا۔ آپؓ کو تو بیعت کے الفاظ بھی یاد نہیں تھے چنانچہ آپؓ نے حضرت سید سرور شاہ صاحبؓ سے فرمایا کہ آپ بیعت کے الفاظ بولتے جائیں، مَیں اُن کو دہراتا جاؤں گا۔ اس طرح حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ نے پہلی بیعت لی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں