حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی نظر میں حضرت المصلح الموعودؓ کا مقام
قبل ازیں ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 16؍ فروری 2001ء کے اسی کالم میں مکرم مرزا خلیل احمد قمر صاحب کا ایک مضمون شائع ہوچکا ہے۔ ذیل کا مضمون اُسی مضمون کا تسلسل ہے جو روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16؍فروری 2001ء کی زینت بنا۔
حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب خلیفۃالمسیح الاولؓ کی زندگی میں بہت سے ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؓ کو اپنی فراستِ مومنانہ اور کشفِ ولیانہ سے محسوس و مشہود ہورہا تھا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب، منشائے الٰہی کے ماتحت کسی منصب عالی کے لئے تیار کئے جارہے ہیں۔ چنانچہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں ایک بار سفر کے دوران ہم گاڑی میں بیٹھے تھے۔ حضور علیہ السلام ہمراہ نہیں تھے ۔ حضرت صاحبزادہ محمود احمد صاحب پلیٹ فارم پر ٹہل رہے تھے۔ جب وہ اندر آئے تو اس سے پہلے کہ کوئی اُن کے لئے جگہ بناتا، حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ فوراً اپنی جگہ سے اٹھے اور نیچے بیٹھ گئے اور اپنی جگہ پر حضرت صاحبزادہ صاحب کو بٹھادیا۔
حضرت مفتی صاحبؓ مزید لکھتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اوّلؓ جب بیمار ہوتے تو حضرت صاحبزادہ صاحب کو اپنی جگہ امامتِ نماز و خطبہ کے لئے مقرر فرماتے۔ اکثر امور میں آپ سے مشورہ طلب کرتے۔ اپنی جگہ آپ کو صدرانجمن احمدیہ کا صدر بھی مقرر فرمایا۔ اپنی بیماری کے ایام میں یہی وصیت ایک کاغذ پر لکھی: ’’خلیفہ محمود‘‘۔
مکرم شوق محمد صاحب لاہور بیان کرتے ہیں کہ 1903ء میں مَیں قادیان میں بغرض تعلیم مقیم تھا۔ حضرت صاحبزادہ صاحب کو آشوب چشم کا عارضہ رہتا تھا۔ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ آپ کی آنکھوں میں اپنے ہاتھ سے دوا ڈالا کرتے تھے اور عموماً نہایت محبت اور شفقت سے آپ کی پیشانی پر بوسہ دیا کرتے تھے اور رُخسار مبارک پر دست مبارک پھیرتے ہوئے فرمایا کرتے: ’’میاں تُو بڑا ہی میاں آدمی ہے، اے مولا! اے میرے قادر مطلق مولا! اس کو زمانہ کا امام بنادے‘‘۔ بعض اوقات فرماتے: ’’اس کو سارے جہان کا امام بنادے‘‘۔ ایک روز مَیں نے کہہ دیا کہ آپ صرف میاں صاحب کے لئے ہی اس قدر عظیم الشان دعا کرتے ہیں، کسی اَور کے لئے کیوں نہیں کرتے۔ اس پر فرمایا: ’’اس نے تو امام ضرور بننا ہے، مَیں تو صرف حصول ثواب کے لئے دعا کرتا ہوں ورنہ اس میں میری دعا کی ضرورت نہیں‘‘۔
ایک غیرازجماعت سید صادق علی شاہ صاحب 1908ء سے 1911ء تک قادیان میں زیرتعلیم رہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ 1911ء میں ایک دن مولوی صاحب علیل تھے اور ایک غالیچہ پر ایک رضائی لے کر تشریف رکھتے تھے۔ باقی کمرہ میں چٹائی بچھی ہوئی تھی۔ کسی کام سے جب آپ اٹھ کر ذرا دُور جابیٹھے جبکہ آپکی رضائی اُسی طرح آپ کی جگہ پر پڑی ہوئی تھی تو اچانک میاں محمود احمد صاحب وہاں آگئے۔ تو مولوی صاحب نے آپ سے فرمایا کہ میری جگہ پر بیٹھ جائیں۔ میاں صاحب ادب سے خاموش کھڑے رہے تو آپ نے دوبارہ فرمایا اور ہاتھ سے اشارہ بھی کیا۔ پھر بھی میاں صاحب نے تأمل کیا تو آپؓ نے سہ بارہ فرمایا تو پھر میاں صاحب اس مسند پر بیٹھ گئے۔
محترم صاحبزادہ سیف الرحمن صاحب آف بازیدخیل نے 1910ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت پائی۔ آپ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضورؓ وحی و الہام کے متعلق بیان فرما رہے تھے کہ حضرت میاں صاحب تشریف لائے۔ حضورؓ نے اُن کو اپنے پاس بٹھاکر پیار کیا اور اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ خدا تعالیٰ ہم سے باتیں کرتا ہے۔ پھر حضرت میاں صاحب سے دریافت فرمایا کہ کیوں میاں! اللہ تعالیٰ آپ سے ہمکلام ہوتا ہے۔ آپ نے اثبات میں جواب دیا تو حضورؓ نے حاضرین سے فرمایا: دیکھو ہمارے میاں سے بھی خدا تعالیٰ باتیں کرتا ہے۔
محترم مولانا ظہور حسین صاحب مجاہد بخارا بیان کرتے ہیں کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے لئے جب حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے خاص طور پر درس القرآن جاری فرمایا تو حضورؓ کا درس سننے کے لئے کئی دوسرے لوگ بھی آجایا کرتے تھے۔ کئی دفعہ حضرت میاں محمود احمد صاحب بھی تشریف لاتے اور لوگوں کے پیچھے بیٹھ جاتے۔ حضورؓ جب آپ کو دیکھتے تو جس گدیلے پر خود تشریف فرما ہوتے، اس میں سے آدھا خالی کرکے فرماتے: میاں آگے تشریف لائیے۔ اس پر حضرت میاں صاحب آپؓ کے ارشاد کی تعمیل میں آپؓ کے پاس بیٹھ جاتے جبکہ دوسری طرف حضرت میاں بشیر احمد صاحب ؓ بیٹھا کرتے تھے۔
محترم مولانا صاحب مزید بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے میرے ہاتھ ایک خط حضرت میاں صاحب کو بھیجا جس میں ادب اور محبت سے میاں صاحب کو مخاطب کرکے دعا کرنے کے لئے کہا ہوا تھا، مجھے اُس وقت خیال آیا کہ میاں صاحب کا اتنا بڑا مقام ہے۔