حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی ہمدردیٔ خلق

ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ کا مئی 2008ء کا شمارہ خلافت نمبر ہے۔ اس میں حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی ہمدردیٔ خلق کے بارہ میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کا بیان فرمودہ ایک واقعہ درج ہے (مرسلہ: مکرم راشد جاوید صاحب)۔
حضرت حکیم صاحبؓ کے پاس جو لوگ سفارش کروانے آیا کرتے تھے، آپؓ اُن کو ٹالتے نہیں تھے لیکن ہر شخص کی اُتنی ہی سفارش فرماتے تھے جتنی کا وہ شخص مستحق ہوتا تھا۔ ایک روز آپؓ دس درخواستیں لے کر مہاراجہ کے بھائی راجہ امر سنگھ کے پاس گئے جو ریاست کے مالک اور وزیراعظم تھے اور آپؓ کا بے حد ادب اور لحاظ کرتے تھے۔ آپؓ نے درخواستیں باری باری اپنی سفارش کے ساتھ پیش کرنا شروع کیں تو راجہ کسی نہ کسی عذر کے ساتھ اُنہیں مسترد کردیتے۔ آپؓ نہایت متانت اور تحمل سے اگلی درخواست پیش کردیتے۔ جب آٹھ درخواستیں مسترد ہوگئیں اور آپؓ نے نویں درخواست نکالی تو راجہ نے کہا کہ حکیم صاحب! مَیں آپ کی آٹھ درخواستیں مسترد کرچکا ہوں اور اگر یہ نویں درخواست بھی مَیں مسترد کردوں تو آپ کیا کریں گے؟ آپؓ نے بڑی متانت سے فرمایا: پھر دسویں درخواست پیش کروں گا۔ راجہ بے ساختہ ہنس پڑا اور بولا کہ باوجود اس قدر نازک مزاج اور خوددار ہونے کے آپ کو درخواستوں کے پے در پے نامنظور کرنے پر غصہ کیوں نہیں آتا۔ آپؓ نے فرمایا: ’’مَیں نے خیال کیا کہ اگر پہلے شخص کا کام نہیں بن سکا تو شاید دوسرے کا بن جائے اور اگر دوسرے کا نہیں بن سکا تو شاید تیسرے کا بن جائے اور اسی طرح آخر تک خیال کرتا گیا کہ شاید دسویں آدمی کا کام بن جائے۔ مَیں نے سوچا کہ میری خودداری اور وقار کو صدمہ پہنچنے سے اگر کسی حاجتمند کا کام بنتا ہے تو یہ سودا مہنگا نہیں‘‘۔ حضرت حکیم صاحبؓ کی تقریر سے راجہ اتنا متأثر ہوا کہ اُس نے ساری درخواستیں منظور کرلیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں