حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ
ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ مارچ 2002ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض اصحاب کے ایمان افروز واقعات مکرم نصراللہ خان ناصر صاحب نے مرتب کئے ہیں۔
حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کے بارہ میں حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’مولوی صاحب نے وہ صدق قدم دکھلایا جو مولوی صاحب کی عظمت ایمان پر ایک محکم دلیل ہے۔ دل میں از بس آرزو ہے کہ اَور لوگ بھی مولوی صاحب کے نمونہ پر چلیں۔ مولوی صاحب پہلے راستبازوں کا ایک نمونہ ہیں۔‘‘
حضرت ماسٹر عبدالرؤف صاحبؓ کا بیان ہے کہ ایک بار بھیرہ کے کسی رئیس نے حضرت مولوی صاحبؓ کو لکھا کہ آپؓ ہمارے خاندانی طبیب ہیں، مہربانی فرماکر بھیرہ تشریف لاکر مجھے دیکھ جائیں۔ آپؓ نے جواباً لکھا کہ مَیں بھیرہ سے ہجرت کرچکا ہوں اور اب حضرت مرزا صاحب کی اجازت کے بغیر قادیان سے باہر کہیں نہیں جاتا…۔ چنانچہ اُس رئیس نے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں لکھا تو حضورؑ نے فرمایا: ’’مولوی صاحب! آپ بھیرہ جاکر اس رئیس کو دیکھ آئیں‘‘۔ چنانچہ آپؓ بھیرہ گئے اور رئیس کو دیکھ کر اُس کے مکان سے واپس قادیان تشریف لے گئے۔ نہ اپنے آبائی مکانوں کو دیکھا نہ عزیزوں سے ملاقات کی۔
حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ راولپنڈی کے ایک متموّل غیراحمدی نے آخر حضورؑ سے درخواست کہ مولوی صاحبؓ کو میرے ساتھ راولپنڈی جاکر میرے فلاں عزیز کا علاج کرنے کی اجازت دیدیں۔ حضورؑ نے فرمایا: ’’ہمیں یقین ہے کہ اگر ہم مولوی صاحب کو یہ بھی کہیں کہ آگ میں گھس جاؤ یا پانی میں کود جاؤ تو اُن کو کوئی عذر نہیں ہوگا لیکن ہمیں بھی تو مولوی صاحب کے آرام کا خیال چاہئے۔ اُن کے گھر میں آجکل میں بچہ ہونے والا ہے اس لئے مَیں اُن کو راولپنڈی جانے کے لئے نہیں کہہ سکتا‘‘۔
اسی طرح ماسٹر اللہ دتّہ صاحب کی روایت ہے کہ ایک موقع پر جب ایک نواب صاحب نے یہی درخواست کی تو حضورعلیہ السلام نے فرمایا: ’’اس میں شک نہیں کہ اگر ہم مولوی صاحب کو آگ میں کودنے یا پانی میں چھلانگ لگانے کے لئے کہیں تو وہ انکار نہ کریں گے لیکن مولوی صاحب کے وجود سے یہاں ہزاروں لوگوں کو ہر وقت فیض پہنچتا ہے۔ قرآن و حدیث کا درس دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ سینکڑوں بیماروں کا ہر روز علاج کرتے ہیں۔ ایک دنیاداری کے کام کیلئے ہم اتنا فیض بند نہیں کرسکتے۔
جب مولوی صاحبؓ کو اس بات کا علم ہوا تو خوشی کی وجہ سے آپ کے منہ سے الفاظ نہ نکلتے تھے۔ فرمایا: مَیں ہر وقت اس کوشش میں لگارہتا ہوں کہ میرا آقا مجھ سے خوش ہوجائے۔ آج میرے لئے کس قدر خوشی کا مقام ہے کہ میرے آقا نے میری نسبت اس قسم کا خیال ظاہر کیا ہے کہ اگر ہم نورالدین کو آگ میں جلائیں یا پانی میں ڈبودیں تو پھر بھی وہ انکار نہیں کرے گا۔
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ آپؓ کے سامنے کسی نے ذکر کیا کہ فلاں دوست کو حضور علیہ السلام نے اپنی لڑکی کا رشتہ کسی احمدی سے کرنے کا ارشاد فرمایا تو اُس نے منظور نہ کیا۔ اُس وقت آپؓ کی بیٹی امۃالحئی صاحبہ بھی جو اُس وقت بہت چھوٹی تھیں، سامنے کھیلتی تھیں۔ آپؓ نے فرمایا کہ مجھے اگر مرزا کہے کہ اپنی لڑکی نہالی (ایک مہترانی) کے لڑکے کو دیدو تو مَیں بغیر کسی انقباض کے فوراً دیدوں گا۔ یہ کلمہ سخت عشق و محبت کا تھا مگر بالآخر وہی لڑکی حضور علیہ السلام کی بہو بنی اور اُس شخص کی زوجیت میں آئی جو حسن و احسان میں حضورؑ کا نظیر ہے۔
حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ کا بیان ہے کہ جب حضرت مولانا حسن علی بھاگلپوری صاحب قادیان تشریف لائے تو ایک روز راستہ چلتے ہوئے مولوی صاحب نے ایک چھپر کے سرکنڈے سے خلال کے لئے ایک تنکا توڑ لیا۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے یہ دیکھا تو فرمایا: حضرت مرزا صاحب کی صحبت کا اثر میرے قلب پر بلحاظ تقویٰ کے اس قدر پڑا ہے کہ جس تنکے کو آپ نے توڑا ہے، میرا قلب اس کے لئے ہرگز جرأت نہیں کرسکتا بلکہ ایسے فعل کو خلاف تقویٰ اور گناہ محسوس کرتا ہے۔
حضرت مولانا راجیکی صاحبؓ مزید فرماتے ہیں کہ نواب خان صاحب تحصیلدار نے ایک دفعہ حضرت خلیفہ اوّلؓ سے عرض کیا کہ آپ تو پہلے ہی باکمال بزرگ تھے، آپؓ کو حضرت مرزا صاحب کی بیعت سے زیادہ کیا فائدہ حاصل ہوا۔ فرمایا: فوائد تو بہت حاصل ہوئے ہیں لیکن ایک فائدہ اُن میں سے یہ ہوا ہے کہ پہلے مجھے حضرت نبی کریمﷺ کی زیارت بذریعہ خواب ہوا کرتی تھی، اب بیداری میں بھی ہوتی ہے۔