حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کا زمانہ طالبعلمی
حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ خلیفۃ المسیح الثالث کے دورِ طالبعلمی کی یادوں پر مشتمل مکرم ڈاکٹر عبدالرشید تبسم صاحب کا مضمون ماہنامہ ’’خالد‘‘ کے سیدنا ناصر نمبر سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16؍جون 1997ء میں منقول ہے۔ مضمون نگار کالج کے زمانہ میں حضرت صاحبؒ کے ہم نشست رہے اور اس طرح آپ کو حضورؒ کے اخلاقِ حسنہ کا نہایت قریب سے مشاہدہ کا موقع ملا۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ حضورؒ کا لباس سادہ مگر نہایت صاف ستھرا ہوا کرتا تھا اور چہرے پر بڑی بشاشت اور رفتار میں وقار تھا۔
مضمون نگار جو 1932ء کے لگ بھگ دو سال تک روزنامہ ’’سیاست‘‘ کے مدیر بھی رہے بیان کرتے ہیں کہ حضورؒ کی نمایاں خوبیوں میں ایک یہ تھی کہ بڑے سے بڑے حادثہ کا بھی روشن پہلو تلاش کرلیتے۔ دوسرے آپؒ کی طبیعت میں نہایت لطیف مزاح تھا اور تیسرے یہ کہ آپؒ کبھی کسی کی غیبت نہ فرماتے۔ ان خوبیوں کے ساتھ آپؒ کی مسکراہٹ اور آنکھوں کی پرکشش چمک جادو کا اثر کرتی اور آپ کا مخاطب مسحور ہو جاتا تھا۔
کالج میں داخلہ کے چند روز بعد ہی آپ نے چند احمدی طلبہ کو ساتھ ملاکر ایک تنظیم قائم فرمائی جس کا نام ’’عشرہ کاملہ‘‘ تجویز پایا۔ اس تنظیم کا منشور دعوت الی اللہ تھا اور اس کے اراکین لاہور کے تمام کالجوں میں حضرت مسیح موعودؑ کا ایک منتخبہ اقتباس ہر ماہ تقسیم کیا کرتے تھے۔حضورؒ کو تنظیم کے اراکین نے صدر منتخب کرلیا۔ جو اقتباس حضورؒ منتخب فرماتے، اس کی اشاعت مضمون نگار کے توسط سے انجام پاتی۔ ان پمفلٹوں کی وجہ سے جلد ہی غیرمسلم عناصر برہم ہوگئے اور انہوں نے حضورؒ کے خلاف سازشیں کرنی شروع کیں اور حملے کرنے کی کوشش بھی کی۔ چنانچہ حضورؒ اور دیگر دوستوں نے اپنے پاس ہاکی رکھنی شروع کی۔ اسی طرح کے ایک موقع پر جب مضمون نگار غضبناک دشمن کے نرغہ میں تھے اس وقت اتفاقاً حضورؒ اپنے چند ہاکی بردار ساتھیوں کے ہمراہ وہاں تشریف لے آئے اور اللہ تعالیٰ نے دشمن کو اس کے مقصد میں ناکام کردیا۔
یونیورسٹی کے امتحان کے دوران ایک بار حضورؒ کے تین چار کلاس فیلو مضمون نگار کو ساتھ لے کر رات گئے حضورؒ کی خدمت میں پہنچے اور حضورؒ کو نیند سے جگا کر عرض کیا کہ صبح جو پرچہ آئے گا وہ آؤٹ ہوگیا ہے اور ہم نے اس کی نقل حاصل کرلی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے پرچے کی نقل بڑے فخر سے حضورؒ کے سامنے کردی۔ آپؒ نے وہ کاغذ پکڑے بغیر فرمایا ’’میں صرف اس محنت کا صلہ لینے کا حقدار ہوں جو میں نے کی۔ جو نمبر مفت ملتے ہوں وہ میں کبھی نہیں لوں گا۔ تم نے اپنی سمجھ کے مطابق مجھے فائدہ پہنچانے کی کوشش کی، اس کے لئے شکریہ۔ مگر اب مجھے سونے دو‘‘۔