حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی پاکیزہ سیرت کے بعض نقوش
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم نومبر 2000ء کے ایک مضمون (مرتبہ: مکرم انتصار احمد نذر صاحب) میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی پاکیزہ سیرت کے بعض نقوش کا بیان کیا گیا ہے۔
حضورؒ کا مطالعہ بے حد وسیع تھا اور آپؒ نے حافظہ بھی حیران کن پایا تھا۔ مکرم مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب کا بیان ہے کہ حضورؒ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کو اتنا پڑھا تھا کہ آپؒ کو حفظ ہوگئی تھیں۔ ایک بار آپؒ نے ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ کے مضامین کو ترتیب کے ساتھ زبانی بیان فرمادیا۔ یہی حال حضرت مسیح موعودؑ کی بیان فرمودہ تفسیر سورۃالفاتحہ اور بعض دیگر کتب کا تھا جو سفر میں بھی حضورؒ کے ساتھ رہتی تھیں۔
مکرم مسعود احمد صاحب دہلوی کا بیان ہے کہ جب 1960ء میں حضورؒ نے مجھے ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ کا مدیر مقرر فرمایا تو ہدایت فرمائی کہ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا گہری نظر سے مطالعہ کرنے کی اہلیت پیدا کروں۔ حضورؒ نے فرمایا کہ ’’اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کی تمام کتب اور ملفوظات و ارشادات قرآن مجید کی تفسیر ہیں۔ حضرت اقدسؑ جو بات کسی قرآنی آیت کا حوالہ دیئے بغیر بظاہر اپنی طرف سے بیان فرماتے ہیں وہ بھی کسی نہ کسی آیت کی تفسیر ہوتی ہے۔ حضورؑ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے، وہی کچھ کہتے ہیں جو قرآن مجید نے بیان کیا ہے‘‘۔
حضورؒ نے مزید فرمایا ’’کثرت مطالعہ سے مجھے اتنی مشق ہوچکی ہے کہ جب بھی مَیں حضرت مسیح موعودؑ کی کوئی ایسی تحریر پڑھتا ہوں تو ازخود قرآن مجید کی وہ آیات میرے ذہن میں آنا شروع ہوجاتی ہیں جن کی وہ تحریر یا عبارت تفسیر ہوتی ہے‘‘۔
مکرم دہلوی صاحب مزید بیان کرتے ہیں کہ 1963ء میں اپنی بیٹی کی شادی کے موقع پر حضورؒ مہمانوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ایک مسودہ بھی ملاحظہ فرماتے جارہے تھے جس کا اشاعت سے قبل حضورؒکی نظر سے گزرنا ضروری تھا۔ سرسری نظر سے مسودہ پڑھنے کے بعد حضورؒ نے ایک لفظ بدل دیا۔ مَیں نے عرض کیا کہ یہی لفظ ایک بار پہلے بھی آچکا ہے۔ حضورؒ نے فرمایا کہ مجھے علم ہے لیکن وہاں یہ لفظ عبارت کے لحاظ سے ٹھیک ہے جبکہ یہاں اِس لفظ کے دوسرے معنے بھی مراد لئے جاسکتے ہیں جو ہمارے منشاء کے برخلاف ہیں۔
مکرم دہلوی صاحب بیان کرتے ہیں کہ 1980ء میں جب حضورؒ امریکہ تشریف لے گئے تو ایک معمر امریکن حضورؒ سے ملا اور بتایا کہ وہ 1976ء میں بھی حضورؒ سے مل چکا ہے۔ حضورؒ نے اُس کے چہرہ پر ایک نظر ڈالی اور فرمایا کہ اُس وقت آپ کا ایک بیٹا بھی آپ کے ساتھ تھا جو قانون کی تعلیم حاصل کررہا تھا اور ساری دنیا کی سیاحت کرنا چاہتا تھا، اُسے آپ اپنے ساتھ نہیں لائے۔ یہ سن کر وہ شخص ورطۂ حیرت میں ڈوب گیا اور چند سیکنڈ دم بخود رہنے کے بعد بولا کہ مَیں تو سمجھا تھا کہ آپؒ مجھے پہچان نہ سکیں گے۔ پھر وہ پیچھے مڑا اور اُسی لڑکے کا بازو پکڑے ہوئے دوبارہ حضورؒ کے پاس آیا اور بتایا کہ وہ تعلیم مکمل کرکے اٹارنی بن چکا ہے۔ اُس لڑکے نے بتایا کہ وہ دنیا کی سیاحت بھی مکمل کرچکا ہے اور پاکستان بھی گیا تھا۔ حضورؒ نے پوچھا کہ میرے پاس کیوں نہیں آئے؟ وہ کہنے لگا کہ میری آپؒ سے دو تین منٹ کی سرسری ملاقات ہوئی تھی اور میرا خیال تھا کہ آپؒ مجھے پہچان نہیں سکیں گے۔ حضورؒ نے فرمایا کہ مَیں نے تو چار سال بعد آپ کو پہچان لیا ہے، اب اگر پاکستان آؤ تو میرے پاس ربوہ ضرور آنا۔
مکرم محمود احمد صاحب شاہد بیان کرتے ہیں کہ حضورؒ نے ایک بار فرمایا کہ اب مَیں بوڑھا ہوچکا ہوں لیکن اگر دوپہر کو ایک گھنٹہ آرام کے لئے مل جائے تو رات بارہ بجے تک تازہ دم ہوکر کام کرسکتا ہوں۔ آج بھی میرا ذہن تو نہیں تھکتا، لیکن جسم بعض دفعہ تھکتا ہے۔ جوانی کی بات اَور ہے، آکسفورڈ کے دوران مَیں نے اٹھارہ گھنٹے بھی مطالعہ کیا لیکن تھکان نہیں ہوئی۔
حضورؒ کی شخصیت بہت سحر آفرین تھی اور چہرے کا نور بتاتا تھا کہ یہ کسی اللہ والے کا چہرہ ہے۔ حضورؒ کے ایک صاحبزادہ کا بیان ہے کہ 1980ء میں غانا کے دورے کے دوران ایک شخص نے حضورؒ کو دیکھتے ہی پُرجوش نعرے لگانے شروع کردیئے کہ مَیں یسوع کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ اس شخص کا خدا سے زندہ تعلق ہے۔ اسی طرح حضورؒ کے ایک جرمن عیسائی دوست نے کہا کہ مجھے مسائل کا تو علم نہیں لیکن مرزا ناصر احمد صاحب کا چہرہ دیکھ کر مَیں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ یہ خدا کا بندہ ہے اور خدا ان سے ہمکلام ہوتا ہے۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍نومبر 2000ء میں شامل اشاعت اپنے مضمون میں مکرم محمد اعظم اکسیر صاحب ایک غیراز جماعت دوست کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ حضورؒ سے ملاقات کے بعد انہوں نے کہا کہ مَیں نے عظیم شخصیت کا تصور یوں کر رکھا تھا کہ اگر مولانا مودودی صاحب اور قائداعظم مل کر ایک وجود بن جائیں تو یہ ایک عظیم شخصیت ہوگی لیکن آج کی ملاقات سے میرا یہ تصور چکنا چور ہوگیا ہے، مَیں اپنے تصور سے بہت اونچی شخصیت دیکھ کر آیا ہوں۔
آپ مزید بیان کرتے ہیں کہ مارچ 1981ء میں حضورؒ نے مجھے طلب فرمایا اور متبسم جلال کے ساتھ میری طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’پرسوں (فلاں گاؤں میں۔ناقل) ایک احمدی بچی کی شادی غیراحمدی سے ہورہی ہے۔ یہ شادی نہیں ہوگی۔ جاؤ‘‘۔ مَیں باہر نکلا اور پریشانی کے عالم میں وہاں پہنچا۔ شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ دعا کرتے کرتے ایک راہ سجھائی دی جس کے مراحل طے کرتے ہوئے بہت سی مشکلات آئیں لیکن خدا تعالیٰ نے فضل فرمایا اور احمدی بچی کی شادی مقررہ وقت پر ایک احمدی نوجوان سے کروانے میں کامیابی ہوگئی۔ اُس بچی کی اولاد میں سے ایک بیٹے نے بعد میں جامعہ احمدیہ میں بھی تعلیم حاصل کی۔
1975ء میں ایک بار حضورؒ کی ہدایت مجھے ملی کہ ایک مناظرہ کیلئے مقررہ تاریخ پر ’’صابو بھڈیار تحصیل پسرور پہنچنا ہے خواہ راستے میں سیلاب ہو‘‘۔ جب یہ پیغام ملا تو ابھی پندرہ دن باقی تھے۔ مقررہ تاریخ کو معمولی سے بادل آئے ۔ جب مَیں بدوملہی کے سٹیشن پر اترا تو بڑا خوفناک منظر تھا۔ بارش نے کسی نالے کو توڑ دیا تھا اور ریلوے سٹیشن ایک جزیرہ نما بن کر رہ گیا تھا۔ تانگے بند تھے چنانچہ بعض لوگوں کے ساتھ مل کر پیدل سفر شروع کیا۔ ریلوے لائن سے نہر کی پٹڑی کے راستے چلتے چلتے سیم کے پانی میں سے گزر کر دس بارہ میل کا فاصلہ طے کیا اور وقت پر اُس جگہ پہنچ گیا۔ آج بھی سوچتا ہوں کہ کس منہ سے یہ بات نکلی تھی جو لفظ بلفظ پوری ہوئی۔