حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ
ماہنامہ ’’تحریک جدید‘‘ ربوہ جون 2010ء میں مکرم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب نے اپنے والد محترم (حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ) کے بارہ میں ’’سیّدی ابّا‘‘ کے عنوان سے اپنی یادوں کو قلمبند کیا ہے۔ ان میں سے ایسے واقعات ہدیۂ قارئین ہیں جو قبل ازیں ’الفضل ڈائجسٹ‘ کی زینت نہیں بنائے گئے۔
حضورؒ کو پیدائش کے کچھ عرصہ بعد حضرت امّاں جانؓ نے گود لے لیا تھا اور آپؒ کی تربیت کی ذمّہ داری بھی اٹھالی۔ جب آپؒ قرآن کریم حفظ کرنے کے بعد جامعہ احمدیہ میں زیرتعلیم تھے اور آپؒ کے کزنز دنیاوی تعلیم حاصل کررہے تھے تو ایک دن حضرت مصلح موعودؓ نماز پڑھانے کے بعد واپسی پر حسب معمول حضرت امّاں جانؓ کے پاس رُکے تو انہوں نے کہا کہ ’میاں! سب بچے تعلیم میں آگے نکل گئے ہیں، ناصر پیچھے رہ گیا ہے‘۔ حضورؓ نے مسکراکر کہا: ’امّاں جان! فکر نہ کریں یہ سب سے آگے نکل جائے گا‘۔
= سیّدی ابّا (خلیفۃالمسیح الثالثؒ) کی جسمانی صلاحیتیں بچپن سے ہی غیرمعمولی تھیں۔ آپؒ سردیوں میں بھی ٹھنڈے پانی سے نہاتے۔ باقاعدگی سے تہجد ادا کرتے۔ کونین چباکر کھا جاتے۔ نوجوانی میں گھوڑے سے گر کر بازو ٹوٹا تو بغیر بیہوش ہوئے بازو ٹھیک کروایا اور جرمنی میں Tonsils کا آپریشن بھی بغیر بیہوش ہوئے کروایا۔
شکار کا شوق تھا۔ نشانہ ایسا پختہ تھا کہ اُڑتی ہوئی بھِڑ کا نشانہ ایئرگن سے لیا کرتے تھے۔
= ایک بات مجھے اپنے بچپن میں بھی عجیب لگا کرتی تھی کہ سیّدی ابّا جب دورے پر جاتے امّی اور ہم بچوں کو حضرت امّاں جان کے ہاں چھوڑ جاتے۔ جب امّاں جان آپؒ کی غیرموجودگی کو زیادہ محسوس کرتیں تو اونچی آواز میں آپؒ کو آواز دیتیں: ’ناصر‘۔ عین اُسی وقت آپ دارالمسیح میں داخل ہوتے اور زور سے السلام علیکم کہتے۔ امّاں جان نے آپؒ کی شادی کے بعد کوٹھی ’النصرت‘ آپؒ کے لئے تعمیر کروائی تھی۔ امّاں جانؓ روزانہ صبح اور کبھی شام کو بھی سیر کرتے ہوئے وہاں تشریف لایا کرتیں۔ صبح کو امّاں جانؓ، سیّدی ابّا اور امّی باغیچہ میں سیر کرتے تو سیّدی ابّا چنبیلی کی کلیاں توڑ کر حضرت امّاں جانؓ کو پیش کرتے۔
= سیّدی ابّا بہت بہادر تھے۔ بڑے بڑے خطروں میں اپنے آپ کو ڈال لیتے۔ 1947ء میں حفاظتِ مرکز آپؒ کی ذمہ داری تھی۔ ایک دن جب محصور خواتین کو گلی کی دوسری طرف سے چھت پر پھٹّے رکھ کر مسجد اقصیٰ لایا جارہا تھا اور آپ مسجد کی ایک کھڑکی کے پاس کھڑے تھے اُس وقت نیچے سے ایک سکھ نے فائر کرنے کے لئے رائفل اٹھائی تو چودھری ظہور احمد صاحب (سابق ناظر دیوان) کی نظر اُس پر پڑی۔ آپؒ کو ہوشیار کرنے کا وقت نہیں تھا۔ انہوں نے پیچھے سے آپؒ کو دھکا دے دیا اور آپؒ گر پڑے۔ آپ بہت احسان مند اور دوست نواز تھے۔ تمام عمر اُن کے اس احسان کو نہیں بھولے۔ خلافت کے بعد جب کبھی بیمار ہوتے اور دفتر نہ جاتے تو چودھری صاحب اُن ایک دو آدمیوں میں شامل تھے جن کو اپنے بیڈروم میں ملاقات کے لئے بلالیتے۔
= آپؒ غیرمعمولی متوکّل انسان تھے۔ قادیان میں ایک دفعہ میری بہن امۃالشکور سخت بیمار تھی۔ آپؒ علاج وغیرہ کے لئے پاس بیٹھے رہے۔ پھر امّی سے کہا کہ میری ایک ضروری میٹنگ ہے، زندگی موت خدا کے ہاتھ میں ہے، مَیں جاتا ہوں۔ واپس آئے تو بچی ٹھیک ہوچکی تھی۔
= ایک بار آپؒ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ شکار پر گئے۔ واپسی پر مغرب کے بعد کا وقت تھا کہ ایک غیرآباد علاقہ میں موٹر کھڑی ہوگئی۔ آپؒ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ سب خاموش رہیں، مَیں دعا کرکے درود پڑھ کر اسے اسٹارٹ کروں گا، انشاء اللہ یہ چل پڑے گی۔ سفر کے دوران سب دعائیں کریں اور کوئی بات نہ کرے۔ پھر ایسا ہی ہوا کہ موٹر چلنے لگی اور پچاس ساٹھ میل کا فاصلہ طے کرکے ایک ورکشاپ کے سامنے خودبخود رُک گئی۔ ورکشاپ والے نے دیکھا تو کاربوریٹر مٹّی سے اَٹا پڑا تھا۔ اُس نے کہا کہ مَیں مان ہی نہیں سکتا کہ پٹرول کا ایک قطرہ گزرے بغیر اس حالت میں یہ موٹر اتنا فاصلہ طے کرکے آئی ہے۔
= ایک دفعہ اس کے برعکس ایک معجزہ ہوا کہ ایک جماعتی دورہ کے دوران جو ڈرائیور آپؒ کو لے کر گیا اُس نے اس قدر Rash Driving کی کہ آپؒ نے سوچ لیا کہ واپس اس کے ساتھ نہیں جاؤں گا۔ لیکن واپسی کے وقت وہی ڈرائیور اپنی کار لے کر آگیا اور آپؒ لحاظ میں اُس کی موٹر میں بیٹھ گئے۔ لیکن جب اُس نے اسٹارٹ کرنا چاہی تو باوجود کوشش کے اسٹارٹ نہ ہوسکی۔ کافی دیر بعد انتظامیہ نے ایک دوسری موٹر کا انتظام کیا۔ جب آپؒ اُس میں بیٹھ کر روانہ ہوئے تو پہلی موٹر بھی اسٹارٹ ہوگئی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے غیب سے آپؒ کی خواہش کو پورا کردیا۔
= لاہور میں فسادات کے زمانہ میں امّی کے ایک ماموں کزن (جو شیعہ تھے) ہمارے ہاں آئے اور ابّا سے کہنے لگے: میاں تواڈے بعد ساڈی واری اے۔ آپؒ نے بے ساختہ جواب دیا: میاں! آرام دے نال سو جاؤ، نہ ساڈا بعد آئے گا نہ تواڈی واری آئے گی۔
= تعلیم الاسلام کالج جب لاہور میں تھا تو وہاں ہوسٹل میں غیرازجماعت لڑکے بھی رہتے تھے۔ اُن میں سے دو جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے تھے اور احمدیوں کے خلاف ہونے والے جلوسوں میں بھی شامل ہوتے تھے۔ ہوسٹل کے سپرنٹنڈنٹ نے اُن کی شکایت کی تو آپؒ نے اُن لڑکوں کو بلاکر فرمایا کہ جلوسوں میں شامل ہونا تمہارا ذاتی معاملہ ہے اور مَیں تمہیں اُس سے نہیں روکتا لیکن اگر تم نے ہوسٹل کے قواعد کی خلاف ورزی کی، وقت پر واپس نہ آئے یا کلاسز اٹینڈ نہ کیں تو پھر ایکشن لیا جاسکتا ہے۔ جب فسادات ختم ہوگئے تو اُن لڑکوں نے ندامت سے کبھی آپؒ کے سامنے آنکھ نہیں اٹھائی۔
= ایک دفعہ مال روڈ لاہور پر برٹش کونسل لائبریری میں ایک دوست سے تعارف ہوا۔ جب اُن کو سیّدی ابّا سے میرے تعلق کا علم ہوا تو وہ سامنے کافی ہاؤس میں لے گئے اور پھر جب ہم باہر نکلے تو وہ سامنے کھڑے ہوئے ایک ریڑھی والے کی طرف اشارہ کرکے مجھے کہنے لگے کہ اپنے ابّا سے کہنا کہ اگر وہ مجھے نہ پڑھاتے تو مَیں آج ریڑھی چلا رہا ہوتا۔ پھر بتایا کہ مَیں ایک بہت غریب لڑکا تھا، کسی کالج میں داخلہ نہیں لے سکتا تھا۔ بالآخر کسی نے کہا کہ تمہارا مسئلہ ٹی آئی کالج کے پرنسپل ہی حل کرسکتے ہیں، اُن کے پاس چلے جاؤ۔ جب مَیں آپؒ سے ملا تو آپؒ نے نہ صرف داخلہ دے دیا بلکہ کالج اور ہوسٹل کے میرے تمام اخراجات معاف کرنے کے علاوہ میرے ذاتی اخراجات بھی اٹھالئے اور پھر مجھے لاء کالج میں بھی پڑھایا۔
= ایک دفعہ پنجاب یونیورسٹی کی سینیٹ کی میٹنگ کے دوران باہر لڑکوں نے مظاہرہ کیا۔ آپؒ نے وائس چانسلر سے لڑکوں کو خاموش کروانے کے لئے کہا تو انہوں نے کہا کہ ہم میں سے تو کسی کی ہمّت نہیں۔ اس پر آپؒ نے باہر جاکر لڑکوں سے کہا کہ نعرہ بازی سے تو مطالبہ نہیں مانا جاسکتا، ہاں اگر مجھ پر اعتماد ہے اور مطالبہ جائز ہے تو اس کے مطابق فیصلہ کروادوں گا۔ اس پر لڑکے ’مرزا ناصر احمد زندہ باد‘ کے نعرے لگاتے ہوئے چلے گئے۔ بعد ازاں آپؒ کی تجویز پر سینیٹ نے لڑکوں کا مطالبہ بھی مان لیا۔
= 1953ء کے فسادات کے دوران رتن باغ میں قیام تھا کہ فجر کے بعد ایک ملازم نے آکر بتایا کہ فوج نے گھیرا ڈالا ہوا ہے اور ایک کپتان صاحب ملنا چاہتے ہیں۔ سیّدی ابّا اُس وقت تلاوت کررہے تھے۔ آپؒ نے اُن کو بلالیا اور بڑے تپاک سے ملتے ہوئے کہا کہ مَیں تو کب سے آپ کا انتظار کر رہا تھا، آپ نے دیر کردی۔ وہ حیران ہوئے۔ پھر آپؒ نے اُن کو گھر کی تلاشی دلوائی۔ کچھ نہ ملا۔ وہ واپس جانے کو تھے کہ آپؒ نے کہا کہ ایک بکس رہ گیا ہے وہ بھی دیکھ لیں۔ اُس میں سے امّی کے جہیز کا ایک ریاستی خنجر نکلا۔ گویا اُن کے ہاتھ ایک بات آگئی۔ حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کے گھر سے رائفل کی کچھ گولیاں ملیں۔ یہ گولیاں اُس contract میں سے بچی ہوئی تھیں جو حکومت نے آپؓ کو فوج کے اسلحہ کے لئے دیا تھا کیونکہ آپؓ کا ایمونیشن بنانے کا کارخانہ تھا۔ بہرحال دونوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ سیّدی ابّا نے چلنے سے پہلے ہم چاروں بچوں کو کہا کہ گھبرانا نہیں، امّی کے سامنے جاکر نہ رونا نہ اُن کو کچھ کہنا (لقمان کی پیدائش کا وقت تھا اور امّی ہسپتال میں تھیں)۔
= جب آپ کو گرفتار کرکے لے جانے لگے تو کیپٹن صاحب نے ڈرائیور سے کہا کہ تم پیچھے بیٹھو، گاڑی مَیں چلاؤں گا اور پھر سیّدی ابّا سے کہا کہ آپ آگے ساتھ بیٹھ جائیں۔ آپؒ نے کہا کہ نہیں چچا جان (حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ) کو آگے بٹھائیں۔ بعد میں یہ کیپٹن صاحب بتایا کرتے تھے کہ مرزا صاحبان نہایت سکون، وقار اور اطمینان کے ساتھ گئے جبکہ فلاں جماعت کے ایک لیڈر کو پکڑنے مَیں گیا تو وہ کانپتے ہوئے میرے پاؤں میں گر پڑا اور کہا کہ خدارا جو لکھوانا ہے لکھوالو، لیکن مجھے پکڑو نہیں۔
= جیل کی کوٹھڑی میں کوئی کھڑکی یا روشندان نہیں تھا۔ پہلی رات جب سونے کا وقت آیا تو آپؒ نے دعا کی کہ ’الٰہی مَیں کسی جرم میں تو نہیں پکڑا گیا، صرف تیری وجہ سے پکڑا گیا ہوں اور اس پر راضی ہوں لیکن گرمی برداشت نہیں کرسکتا۔ پس تُو اس عاجز بندہ کے لئے ہوا چلادے‘۔ ابھی دعا ختم نہیں ہوئی تھی کہ ٹھنڈی ہوا چلنے لگی اور آپؒ اطمینان سے سو گئے۔
= آپؒ کو پانچ سال قید بامشقّت اور پانچ ہزار روپے جرمانہ کی سزا ہوئی تو مشقّت کے طور پر آپؒ کو روئی سے تکلے پر دھاگہ بنانا ہوتا تھا۔ جیل میں قیدیوں پر نمبردار ہوتا ہے۔ آپ کے نمبردار نورا صاحب تھے۔ اُن کے دل میں اللہ تعالیٰ نے اِن اسیروں کی ایسی محبت ڈال دی تھی کہ وہ اِن دونوں سے روئی خود لے جاتے تھے اور ویسے بھی ہر طرح خیال رکھتے۔ اُس زمانہ میں جیل کے وزیر سیّدی ابّا کے ایک پرانے دوست تھے۔ وہ ایک بار دورہ پر آئے تو آپؒ سے پوچھا کسی چیز کی ضرورت تو نہیں۔ فرمایا کہ ہم بالکل ٹھیک ہیں۔ پھر سیّدی ابّا اُن کو ایک طرف لے گئے اور کہا کہ ہمارے نمبردار کی مدّتِ جیل تھوڑی رہ گئی ہے اگر آپ کچھ کرسکتے ہیں تو ان کی رہائی کا انتظام کروادیں۔ چنانچہ انہوں نے اُسی وقت نمبردار صاحب کے کاغذات بھجوانے کو کہا اور کچھ عرصہ بعد اُن کی رہائی عمل میں آگئی۔
= 1974 ء کے فسادات کے دنوں میں مَیں آکسفورڈ میں پڑھ رہا تھا۔ آپؒ کی اجازت سے مَیں واپس آیا تو فسادات ختم ہوچکے تھے۔ آپؒ نے مجھے بتایا کہ اسمبلی میں ہر سوال جو مجھ سے ہوتا تھا خدا تعالیٰ الہاماً مجھے اس کا جواب بتاتا تھا نیز یہ بھی بتاتا کہ جواب کب دینا ہے، اُسی دن یا کسی اَور دن۔ اور یہ بھی الہام کرتا کہ کس طرح جواب دینا ہے۔ چنانچہ آپ کے مُسکت جوابوں کا ممبران اسمبلی کے پاس جواب الجواب کوئی نہ تھا۔ آپؒ نے یہ بھی بتایا کہ فسادات کے تمام عرصہ میں آپؒ تین ماہ تک دن رات جاگتے رہتے تھے۔ رات کو بھی برآمدہ میں ٹہلتے رہتے، دعائیں کرتے اور فون وغیرہ خود ہی اٹینڈ کرتے۔ جب حالات بہتر ہوگئے تو غیراحمدیوں کے وفود کثرت سے آپؒ سے ملنے کے لئے آنے لگے۔ یہ معجزہ بارہا ہوا کہ اُن کے سوال کرنے سے پہلے ہی جواب آپؒ دے دیا کرتے تھے۔ خلیفہ بننے سے قبل بھی آپؒ مستجاب الدعوات تھے۔ لیکن خلافت کے بعد تو آپؒ نے قبولیتِ دعا کا خاص معجزہ مانگا تھا جو اللہ تعالیٰ عطا فرمایا۔
= جب مَیں ایم اے کرکے تعلیم الاسلام کالج میں لیکچرر متعین ہوا تو ایک روز آپؒ کے پیچھے پیچھے کالج جانے کے لئے گھر سے نکلا۔ میری نظر آپؒ کی اچکن پر لگے ہوئے ایک پیوند پر بار بار پڑ رہی تھی اور آپؒ بغیر کسی احساس کمتری کے انتہائی وقار سے چلتے جا رہے تھے۔
ژ آپؒ ہمیشہ ہمیں یہ نصیحت فرماتے کہ کوئی ایسا کام نہ کرنا جس سے حضرت مسیح موعودؑ کے نام پر کوئی دھبہ لگے۔ باہر جانے والے مبلّغین کو ہمیشہ یہ نصیحت بھی کرتے کہ اپنے مولیٰ سے بے وفائی کبھی نہ کرنا۔
= حضرت مصلح موعودؓ کی وفات کے بعد انتخابِ خلافت کے وقت آپؒ ذرا دیر سے مسجد میں پہنچے اور آپ کو جوتیوں میں جگہ ملی۔ انتخاب کے بعد ایک شخص نے آپؒ کو خط لکھا کہ جب آپ مسجد میں آئے تو ساری مسجد بھر چکی تھی اور صرف جوتیوں میں جگہ رہ گئی تھی۔ مَیں آپ کو جگہ دے سکتا تھا لیکن مَیں آپ سے سخت نفرت کرتا تھا اور مَیں نے دل میں کہا کہ آج آپ کو جوتیوں میں ہی بٹھانا ہے۔ لیکن جب آپ خلیفہ بن گئے تو میری نفرت یکایک انتہائی محبت میں بدل گئی اور آج مَیں آپ سے اُس سے کہیں زیادہ محبت کرتا ہوں جتنی نفرت کیا کرتا تھا۔
= آپؒ کے دورِ خلافت کے آغاز میں لاہور کے مربی مکرم بشیرالدین صاحب کو کسی غیراحمدی مولوی نے مباحثہ کی دعوت دی۔ حضورؒ کے علم میں یہ بات آئی تو حضورؒ نے مکرم مولوی دوست محمد صاحب کو حوالوں میں مدد دینے کے لئے ساتھ بھجوایا لیکن فرمایا کہ مباحثہ بشیرالدین صاحب ہی کریں گے۔ اور پھر (خداتعالیٰ سے علم پاکر) یہ بھی فرما دیا کہ یہ مولوی بہائی جماعت سے تعلق رکھتا ہے۔ بشیرالدین صاحب بڑے حیران ہوئے کیونکہ یہ بات تو اُن کو بھی معلوم نہیں تھی۔ لیکن جب بحث شروع ہوئی تو جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ وہ مولوی واقعی بہائی تھے اور بعد میں پتہ چلا کہ وہ بہائیوں سے وظیفہ بھی لیتے تھے۔
= جب مَیں پرائیویٹ سیکرٹری تھا تو ایک نوجوان حضورؒ سے ملنے کے لئے آیا۔ مَیں نے اُسے بتایا کہ حضورؒ بیمار ہیں۔ اُس نے بہت اصرار کیا تو مَیں نے ڈاک پیش کرتے وقت اُس نوجوان کا ذکر بھی کردیا۔ عموماً حضورؒ ایسے مواقع پر وقت دے دیتے تھے یا معذرت کرلیتے تھے لیکن اُس روز مجھے فرمایا کہ کل جواب دوں گا۔ اگلے روز مَیں نے پوچھا تو فرمایا کہ رات مَیں نے رؤیا میں دیکھا ہے کہ اُس نے چادر لی ہوئی ہے اور اُس میں خنجر چھپایا ہوا ہے۔ چنانچہ مَیں نے تفصیل بتائے بغیر اُس نوجوان سے معذرت کردی۔ وہ بار بار آتا، اصرار کرتا اور ہر بار مَیں معذرت کردیتا۔ پھر وہ خطوں میں سخت کلامی کرنے لگا، آخر حضورؒ کے خلاف سخت کلامی کرنے لگا اور پھر احمدیت ہی چھوڑ گیا۔ دراصل جب آپؒ نے کہا تھا کہ کل بتاؤں گا تو الٰہی خبر کے مطابق کہا تھا۔
= اللہ تعالیٰ نے آپؒ میں عجیب جذب رکھا تھا کہ لوگ آپؒ کے گرد جمع ہوجاتے۔ معصوم بچے آپؒ سے چمٹ جاتے۔ اگر کوئی تکلیف بھی دیتا تو بھی آپؒ اپنی شفقت میں کبھی کمی نہ کرتے۔ خلافت سے قبل ایک شخص نے (جس پر آپؒ کے بہت احسانات تھے) ایک خط میرے ہاتھ لفافہ میں بند کرکے آپؒ کو بھجوایا۔ اگلے روز آپؒ نے مجھ سے کہا کہ تم نے مجھے بہت گالیاں دلوائی ہیں۔ لیکن اُس دوست سے شکوہ نہ کیا اور نہ ہی اپنے احسانات میں کوئی کمی کی۔
= حضورؒ خدمت کرنے والے واقفین کی بہت قدر کرتے تھے۔ ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب(آف نائیجیریا) فوت ہوئے تو مجلس کارپرداز نے بعض وجوہ کی بِنا پر سفارش کی کہ تدفین بہشتی مقبرہ میں نہیں ہونی چاہئے۔ متعلقہ کارکن جب یہ فائل لے کر آیا تو حضورؒ نے بڑے جوش سے فرمایا کہ ڈاکٹر صاحب کی ایسی خدمات تھیں کہ اگر وہ موصی نہ بھی ہوتے تو بھی مَیں اُن کو بہشتی مقبرہ میں دفن کرواتا۔
= آپؒ بہت باحیا تھے۔ کوئی ناپسندیدہ بات دیکھتے تو نظریں جھک جاتیں اور چہرہ شرم سے سُرخ ہوجاتا۔ روکنا بھی ہوتا تو مناسب طریق پر روکتے۔
= حضورؒ کی ایک پرانی ڈائری سے چند مندرجات پیش ہیں جن سے آپؒ کی سوچ کی پاکیزگی کا اندازہ ہوسکتا ہے:
1- (16اپریل 1932ء۔ عید کا دن) ’’ایک افسردہ دل کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے ہی افسردہ خیالات کی دنیا میں غرق رہے اور لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ۔ حقیقی خوشی تو اللہ تعالیٰ کو ہی مل کر حاصل ہوتی ہے اور اس کے علاوہ سب رنج اور افسردگی ہی ہے۔ پھر عید، عید کیسی؟‘‘
2- (26مئی 1934ء( ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کا دن ہے۔ ہر چہرہ اداس ہے ہر دل غمگین۔ مگر یہ غم شیعوں کا غم نہیں جس کا بہترین اظہار ماتم میں سمجھا گیا ہے۔ یہ غم وہ غم ہے جو دل میں ابدی تڑپ پیدا کرتا ہے اور ایک نہ ختم ہونے والی عملی قوت کا انسان کو مالک بنا دیتا ہے۔ یہ روح کو بے چین کردیتا ہے مگر صرف بے چین ہی نہیں کرتا بلکہ ایسے راستے بھی بتاتا ہے کہ جن کے ذریعہ سے اس کی بے چینی کا اچھا (خوشکن) نتیجہ نکل سکے‘‘۔