حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی شفقتیں اور قبولیت دعا

٭ سہ ماہی ’’خدیجہ‘‘ کا سیدنا طاہرؒ نمبر میں حضورؒ کی شفقتوں کے ضمن میں مکرمہ امۃالرفیق نسیم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ مجھے 1984ء میں کچھ عرصہ حضورؒ کے گھر (لندن میں) حضورؒ اور دیگر اہل خانہ کی خدمت میں کھانا پیش کرنے کی سعادت ملتی رہی ہے۔ انہی دنوں مَیں نے اپنا جائے نماز پاکستان سے منگوایا اور حضورؒ کی خدمت میں عرض کیا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ حضورؒ اس پر نماز پڑھ کر دعا کردیں۔ حضورؒ نے وہ جائے نماز پانچ دن اپنے پاس رکھا اور پھر واپس کردیا۔ جب مَیں خوش خوش جائے نماز لے کر گھر آئی تومجھے بتایا گیا کہ یہ جائے نماز تو فلاں کا تھا جو غلطی سے تمہیں دے دیا گیا تھا اور اب اصل مالک کا مطالبہ ہے کہ انہیں یہی جائے نماز چاہئے۔ مَیں نے ساری صورتحال بتاکر کہا کہ مَیں اسی طرح کا ایک اَور جائے نماز انہیں خرید دیتی ہوں۔ لیکن وہ اپنے مطالبہ سے دستبردار نہ ہوئیں کیونکہ یہ جائے نماز اُن کو جہیز میں ملا ہوا تھا۔ اس پر مَیں نے سخت مجبوری میں وہ جائے نماز واپس کردیا اور ایک نیا جائے نماز خرید کر حضرت بیگم صاحبہؒ کے پاس لے گئی اور ساری بات سچ سچ کہہ دی اور کہا کہ یہ بات حضورؒ سے کیسے کہوں ، مجھے شرم آتی ہے کہ حضورؒ کیا فرمائیں گے؟ اُس وقت حضورؒ دوپہر کا کھانا کھاکر اپنے کمرہ میں تشریف لے جاچکے تھے اور مَیں سیڑھیوں میں کھڑی حضرت بیگم صاحبہؒ سے یہ بات عرض کر رہی تھی۔ آپؒ کمرہ میں گئیں تو چند ہی لمحوں میں حضورؒ خود تشریف لائے اور ہاتھ میں ایک قیمتی جائے نماز تھا جو مجھے تھمادیا۔ بعد میں بیگم صاحبہؒ نے بتایا کہ یہ حضورؒ کا ذاتی جائے نماز ہے جو حضورؒ نے نماز تہجد کے لئے مخصوص کیا ہوا تھا۔
جب مَیں جرمنی میں اپنے پہلے بچہ کی وقت سے پہلے پیدائش اور وفات پر بہت بیمار ہوئی تو حضورؒ نے میری تکلیف کا بہت احساس کیا، دوائیں تجویز کیں، دعائیں کیں، تسلّی آمیز خطوط لکھے۔ یہ بھی لکھا کہ جب خدا تعالیٰ چندے آفتاب چندے ماہتاب بیٹا دے تو اُسے میرا پیار دیں اور محمد سعید نام رکھیں۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے پھر بیٹا عطا فرمادیا۔
٭ سہ ماہی ’’خدیجہ‘‘ کا سیدنا طاہرؒ نمبر میں مکرمہ رسالۃ افضل بیان کرتی ہیں کہ میرے میاں کبڈی کھیلتے تھے اور اس لئے حضورؒ کو بہت پسند تھے۔ ایک بار حضورؒ نے اُن سے پوچھا کہ تمہاری شادی ہوگئی ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ جس گھر میں بات چل رہی ہے وہاں ابھی سارے راضی نہیں ہیں۔ حضورؒ نے فرمایا انشاء اللہ تمہاری شادی اسی گھر میں ہوگی۔ چند دن بعد ربوہ سے دو مربیان ہمارے گھر (پاکستان میں) آئے اور حضورؒ کا ایک خط میرے والد صاحب کو پڑھایا کہ یہ لڑکا بہت اچھا ہے، آپ رشتہ کردیں، اللہ تعالیٰ کامیاب کرے گا۔ یہ پڑھ کر میرے والد صاحب نے اُسی وقت خط پر دستخط کردیئے۔ پھر میری شادی ہوگئی۔ مَیں جرمنی آگئی تو حضورؒ سے ملاقات کا موقع بھی ملا۔ کچھ عرصہ بعد ایک بار کبڈی کے میدان میں حضورؒ نے افضل سے پوچھا: ابھی دو ہو کہ تین ہوگئے ہو؟۔ یہ کہنے لگے کہ حضور! آپ کی دعا کی ضرورت ہے۔ فرمایا: اگلے سال انشاء اللہ بچے بھی ہوجائیں گے۔ اور واقعی اگلی ملاقات پر ہم گئے تو ہمارا ایک ماہ کا بیٹا بھی ہمارے ساتھ تھا۔
٭ سہ ماہی ’’خدیجہ‘‘ کا سیدنا طاہرؒ نمبر میں ہی مکرمہ نجمہ باری صاحبہ رقمطراز ہیں کہ ہم دسمبر 1994ء میں جرمنی آئے۔ 1995ء کے جلسہ سالانہ پر ملاقات کی درخواست دی لیکن معلوم ہوتا تھا کہ منظور نہیں ہوئی۔ جلسہ کا تیسرا دن تھا جب حضورؒ مجلس عرفان کے لئے زنانہ جلسہ گاہ میں تشریف لائے تو مجھے جذبات پر قابو نہ رہا اور رونے لگی۔ حضورؒ نے اچانک فرمایا: وہ بچی کیوں رو رہی ہے۔ مَیں نے مائیک میں بتایا کہ حضورؒ کو پہلی بار دیکھا ہے اور ربوہ سے آئی ہوں، میری ملاقات کی درخواست بھی ابھی تک منظور نہیں ہوئی۔ حضورؒ نے فرمایا کہ اب تو ہوگئی۔ مَیں نے کہا: نہیں حضور، آپ وہاں اور مَیں یہاں۔ تو حضورؒ نے فرمایا کہ سٹیج پر آجاؤ۔ مَیں سٹیج پر گئی تو حضورؒ نے میرے آنسو صاف کئے، سر پر پیار دیااور فرمایا: اب ٹھیک ہے۔
1996ء میں میری شادی ہوئی تو میرے میاں کا اسائیلم کا کیس بالکل ختم ہوچکا تھا۔ ڈیڑھ سال بعد میری پروٹوکول آگئی تو سب کہنے لگے کہ فرینکفرٹ کی عدالت بہت سخت ہے، کسی دوسرے ملک جانے کی تیاری کرلو۔ مَیں حضورؒ کو باقاعدہ خط لکھتی رہی۔ جس دن عدالت جا رہے تھے تو آدھے راستہ میں مجھے یاد آیا کہ مَیں اپنا شناخت نامہ بھول آئی ہوں۔ اس پر میرا بھائی واپس گھر گیا۔ جب وہ آیا تو اُس کے ہاتھ میں حضورؒ کا ایک خط بھی تھا جو اُسی دن ملا تھا اور حضورؒ کے پیڈ پر لکھا ہوا تھا جس میں بڑے تسلّی آمیز الفاظ تھے۔ مَیں نے اُسی وقت کہا کہ میرا کیس پاس ہوگیا، مجھے اب کوئی پریشانی نہیں۔
عجیب بات یہ تھی کہ میرے بھائی کا کیس بھی میرے ساتھ ہی ہوا تھا لیکن میرا کیس پاس ہوا اور اُس کا کیس ختم ہوگیا۔
٭ مکرمہ مسعودہ بھٹی صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ جرمنی میں ڈرائیونگ کا امتحان پاس کرنا بہت مشکل ہے اور وہ لوگ جو بڑی عمر میں یہاں آئے ہیں، اُن کے لئے تو بہت ہی مشکل ہے۔ مَیں نے بھی جب تیاری شروع کی تو تھیوری کے کسی لفظ کی مجھے سمجھ نہ آتی تھی۔ بچوں سے مدد لیتی رہی اور حضورؒ کو دعا کیلئے لکھتی رہی۔ حضورؒ نے مجھے لکھا کہ دو دعائیں:

اللّٰھمّ اَرِنَا حَقَائِقَ الْاَشْیاء

اور

رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا

کثرت سے پڑھا کروں۔ مَیں نے ایسا ہی کیا۔ جب تھیوری ٹیسٹ ہوا تو مَیں نے بغیر کسی غلطی کے پاس کرلیا اور بعد میں ڈرائیونگ ٹیسٹ بھی پاس کرلیا۔
٭ مکرمہ نسرین حمید صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ جون 1989ء میں ہم نے حضورؒ سے ملاقات کی تو میری بڑی بیٹی تین ماہ کی تھی۔ میرے میاں نے عرض کیا کہ مَیں حافظ قرآن ہوں اور میرا دل چاہتا ہے کہ اپنی بیٹی کو بھی قرآن کا کچھ حصہ حفظ کراؤں۔ حضورؒ نے فرمایا: کچھ کیوں، سارا کیوں نہیں۔ حضورؒ کے الفاظ میری بیٹی کے لئے ہی نہیں بلکہ بیٹے کے لئے بھی دعا بن گئے اور دونوں حافظ قرآن بن گئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں