حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی یادیں
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21؍جولائی 2003ء میں شامل اشاعت مکرم عبدالسمیع نون صاحب اپنے مضمون میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع کا ذکر خیر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ 5؍اکتوبر 1974ء کو سرگودھا کے بیشتر احمدیوں کی املاک لوٹ لی گئیں یا نذر آتش کردی گئیں۔ انہی میں حضرت مرزا عبدالحق صاحب اور مکرم ڈاکٹر حافظ مسعود احمد صاحب بھی شامل تھے۔ مکرم ڈاکٹر صاحب کسی دوست کے مکان کے ایک کمرہ میں منتقل ہوگئے جس کا فرش ناہموار اینٹوں کا تھا۔ اس میں دری بچھاکر کافی عرصہ گزارا۔ اس دوران آپ کو چارپائیوں، بستروں اور رقوم کی بہت پیشکش ہوئی مگر آپ نے ہمیشہ معذرت ہی کی۔ حتیٰ کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے ہزارہا روپے ایسے دوستوں کی بحالی کے لئے بھجوائے لیکن مذکورہ دونوں اصحاب نے ایسی کوئی مدد لینے سے بھی معذرت ہی کی۔ اس معذرت کے بارہ میں رپورٹ جب حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں ارسال کی گئی تو آپؒ نے فرمایا کہ اِنہوں نے کوئی رقم لینی ہی نہیں تھی، مجھے معلوم تھا، مَیں ان کے لئے الگ دعا کر رہا ہوں۔
اس موقع پر حضرت مرزا طاہر احمد صاحب (رحمہ اللہ تعالیٰ) نے اپنی کار اس تاکید کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کو بھجوادی کہ آپ کے پاس کوئی سواری نہیں ہے اور سانس پھولنے کی بیماری کے باعث آپ پیدل بھی نہیں چل سکتے اس لئے یہ موٹر کار رکھ لیں۔ تاہم محترم ڈاکٹر صاحب نے جواب میں لکھا کہ آپ میرے محسن اور میرے بھائی ہیں، میرے آقا کے لخت جگر اور خلیفہ وقت کے بھائی ہیں، آپ کا احسان عمر بھر نہ بھولوں گا۔ مگر 12X9 فٹ کا کمرہ میری ساری کائنات ہے، نہ گھر ہے نہ کلینک۔ مَیں نے کہیں نہیں جانا ہوتا۔ مَیں یہ سوچتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔ اگر مَیں کسی سے کوئی شے آج اس بے بسی کے دَور میں وصول کروں تو وہ کہے گا: ’’او بے غیرت مسعود! ساری عمر مَیں نے تمہیں موجیں کرائیں، اگر ایک معمولی سا جھٹکا دیا ہے تو تمہیں اب شک پڑ گیا ہے کہ میرے خزانے میں تیرے لئے اب کچھ نہیں رہا‘‘۔