حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی یادیں
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 26؍ جون 2003ء کی زینت مکرم خلیفہ صباح الدین صاحب کے مضمون میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی سیرت کے مختلف پہلو بیان کئے گئے ہیں۔
آپ لکھتے ہیں کہ حضورؒ بچپن سے ہی نہایت ذہین اور زیرک تھے۔ ہر وقت کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتے۔ جب وقت ملتا تو کھیل میں حصہ لیتے۔ ہمیں جب بھی شکار کے لئے کارتوس یا بندوق کی ضرورت ہوتی، درخواست کرنے پر فوراً مل جاتی۔ آپؒ کا کیمرہ بھی ہفتوں ہمارے قبضہ میں رہتا۔ ایک بار مجھے مہمانوں کو لاہور لے جانے کے لئے کار کی ضرورت پڑی تو فوراً چابیاں دیدیں۔ پھر دیکھا تو کار کی بیٹری بہت ڈاؤن تھی۔ فرمایا چلو دھکیل کر سٹارٹ کرتے ہیں۔ رات دس بجے کا وقت تھا۔ آپؒ نے حکماً مجھے ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھایا اور خود دھکیلنا شروع کیا لیکن گاڑی سٹارٹ نہ ہوئی۔ اتنی دیر میں مکرم سید خالد شاہ صاحب اور مکرم سید قاسم شاہ صاحب آگئے تو ہم نے اصرار کرکے حضورؒ کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھایا اور پھر گاڑی سٹارٹ ہوگئی۔
خلافت سے قبل ہی آپؒ کو اللہ تعالیٰ کا قرب اور قبولیت دعا کا نشان عطا ہوا تھا۔ ایک دفعہ خاکسار کے ایک دوست سخت مشکل میں پھنس گئے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ مسجد مبارک میں نہایت عاجزی سے دعا کر رہے تھے کہ سجدہ میں اُن کو اشارہ ہوا کہ جو شخص اُن کے دائیں جانب کھڑا ہے، اُسے دعا کے لئے عرض کرو کیونکہ اُس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ انہوں نے سلام پھیر کر دیکھا تو یہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب تھے۔
حضورؒ کی خلافت سے اطاعت اور محبت بھی مثالی تھی۔ ایک بار مجھے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے ارشاد فرمایا کہ ایک معاملہ میں ضروری مشورہ کرنا ہے میاں طاہر احمد صاحب کو جلد بلالاؤ۔ مَیں نے آپؒ کو حضورؒ کا پیغام دیا تو آپؒ سلیپر پہنے ہوئے تھے۔ اُسی حالت میں قریباً دوڑتے ہوئے روانہ ہوئے کہ حضورؒ نے فوری طلب فرمایا ہے۔
ایک بار مجھے میر رسول بخش تالپور صاحب سینئر وزیر نے بتایا کہ اُن کا خاندان صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی بہت عزت کرتا ہے کیونکہ ایک بار اُن کے بڑے بھائی میر علی احمد تالپور کا، جو وزیر تھے ، وزیراعظم بھٹو سے کابینہ کی میٹنگ میں اختلاف ہوگیا۔ اسی وقت اطلاع آئی کہ حضرت صاحبزادہ صاحب آئے ہیں۔ بھٹو نے آپؒ کو وہیں بلالیا۔ آپؒ نے آکر ماحول کو دیکھا تو بھٹو سے میر صاحب کے بارہ میں کہا کہ یہ سندھ کا ایک معزز خاندان ہے اور اختلاف کرنے پر ناراضگی اچھی نہیں لگتی۔ تالپور صاحب نے بتایا کہ ہماری والدہ محترمہ اور دیگر افراد خانہ میاں صاحب کی حق گوئی اور بزرگی کی بہت عزت کرتے ہیں۔
مکرم تالپور صاحب نے کہا کہ وہ حضرت میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتے ہیں۔ جب آپ کی خدمت میں عرض کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مَیں خود اُن کے دفتر میں جاؤں گا۔ چنانچہ آپ ایک روز تشریف لے گئے تو تالپور صاحب نے لفٹ کے دروازہ پر آپ کا استقبال کیا۔ آپ نے کھدر کا جوڑا زیب تن فرمایا ہوا تھا۔ تالپور صاحب کو بہت پسند آیا اور کہا کہ انہیں بھی اس کپڑے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ کچھ عرصہ بعد آپ نے ربوہ سے میرے ہاتھ ایک تھان اُسی کپڑے کا اُنہیں بھجوادیا۔
خلیفہ بننے کے بعد جب حضورؒ پہلی بار سندھ کے دورہ پر تشریف لائے تو ایک بار ایک سندھی وڈیرہ صاحب ناصر آباد کے لان میں ایک سرکش گھوڑی لائے جو کسی کو نہ سوار ہونے دیتی تھی نہ اپنی پیٹھ پر زین کسنے دیتی تھی۔ حضورؒ نے اپنی پگڑی خاکسار کو پکڑائی اور چھڑی ایک دوسرے صاحب کو۔ پھر دو چار چکر گھوڑی کے گرد لگائے، اس کو تھپکی دی اور اچانک گھوڑی کی ننگی پیٹھ پر چھلانگ لگاکر سوار ہوگئے۔ گھوڑی سرپٹ دوڑ پڑی، سب کی چیخیں نکل گئیں، گھوڑی نے گرانے کا پورا زور لگایا لیکن حضورؒ اسے پورے قابو میں رکھے ہوئے تھے۔ لان کے چار پانچ چکر لگاکر جب گھوڑی تھک گئی تو حضورؒ نیچے تشریف لائے۔ گھوڑی کے مالک بولے کہ انہوں نے حضورؒ جیسا شہ سوار کبھی نہیں دیکھا۔
خلافت کے بعد حضورؒ نے اپنی ذاتی گاڑی خاکسار کو دیدی تھی۔ آپؒ حکم دیا کرتے کہ فلاں صاحب کو تیل وغیرہ ڈال کر گاڑی دیدوں اور تیل اور مرمت کی قیمت آپؒ سے وصول کرلوں۔ جب مجھے معاون ناظر ضیافت مقرر فرمایا تو کئی ہدایات بھی دیں چنانچہ کئی ڈیپ فریزر خریدے گئے جن میں گوشت بھون کر اور شامی کباب بناکر رکھے جاتے۔ ملاقات کی غرض سے آنے والے ہزاروں افراد کے لئے فوری انتظام مشکل ہوجاتا تو ابلتے پانی کی دیگیں تیار رکھی جاتیں۔ بعض اوقات حضورؒ فون پر ارشاد فرماتے کہ اگر کھانے میں دیر ہے تو ربوہ کی تمام دکانوں سے مٹھائی اٹھوالو۔
حضورؒ کے منہ مبارک سے جو بات نکلتی اللہ تعالیٰ اُسے پورا فرمادیتا۔ جب مجھے دل کی تکلیف ہوئی تو ICU میں مجھے حضورؒ کا پیغام بذریعہ فیکس ملا کہ انشاء اللہ جلد صحت مند ہوکر گھر چلے جاؤگے، دین کی خدمت جاری رکھنا۔