حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی یادیں
رسالہ ’’الھدیٰ‘‘ سویڈن کے شمارہ اگست تا اکتوبر 2008ء میں مکرم مامون الرشید ڈوگر صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی چند خوبصورت یادوں کو بیان کیا ہے۔
حضور انورؒ کی احمد نگر میں زرعی زمین ہمارے ساتھ تھی اور اس طرح اکثر ملاقات کا موقع بھی مل جاتا کیونکہ آپؒ (خلافت سے قبل) اکثر زمینوں پر سائیکل پر جایا کرتے تھے۔ ایک دن جب مَیں سائیکل پر ربوہ آرہا تھا تو حضورؒ سائیکل پر پیچھے سے آئے (یہ قریباً1978ء کی بات ہے جبکہ میںB.A. کا طالبعلم تھا) اور فرمایا کہ چلو سائیکل ریس ہوجائے۔ خاکسار نوجوان تھا اس لئے جوش میں آکر پوری قوت سے سائیکل ریس شروع کر دی لیکن ایڑی چوٹی کا زور لگانے پر بھی حضورؒ کی گرد کو بھی نہ پاسکا۔ مسجد مبارک سے پہلے والے موڑ پر جہاں سے حضور انورؒ اپنے گھر کی طرف مڑا کرتے تھے، وہاں پہنچا تو حضورؒ کو وہاں اپنا انتظار کرتے پایا۔ جب سانس کچھ درست ہوئی تو استفسار فرمایا کہ آپ کے دادا جان کا کیا نام ہے۔ خاکسار نے عرض کیا کہ ماسٹر چراغ محمد صاحب آف کھارا۔ فرمایا کہ صحابہ کے ساتھ ہمیشہ حضرت کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ وہ میرے بھی استاد تھے اور کچھ واقعات بھی سنائے۔ آپؒ نے بتایا کہ میرے دادا جان نے اُس زمانے میں اچھی تعلیم حاصل کی اور پھر حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر ایک اعلیٰ نوکری کی پیشکش کو چھوڑ کر قادیان سکول میں چند روپوں پر استاد ہوگئے۔ ہمارا خدا اپنے بندے کی چھوٹی سی قربانی کے لئے بھی بڑی غیرت رکھتا ہے۔ اُن چند روپوں نے آج حضرت ماسٹر صاحب کی اولاد کے گھروں کو روپوں سے بھر دیا ہے۔ پھر پوچھا کہ بتاؤ آج حضرت ماسٹر صاحب کے بچوں کے پاس کتنی گاڑیاں ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ جی تین۔ فرمانے لگے دیکھو یہ بھی احمدیت کی سچائی کا ایک نشان ہے۔
خاکسار نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی تحریک پر وقف کی درخواست دی تھی۔ خلافت رابعہ میں فوج میں کمیشن کی کال بھی آگئی تو مَیں نے ملاقات میں صورتحال بیان کی۔ فرمانے لگے آرمی میں جا کر کیا کروگے، میجر سے اوپر تو ترقی ہوگی نہیں۔
لیکن خدا کی قدرت کہ میری وقف والی فائل دفتر سے کہیں گُم ہوگئی۔ مَیں دوبارہ حضورؒ کی خدمت میں حاضر ہوا تو فرمایا کہ باہر چلے جائیں۔ میں نے عرض کیا کہ حضور میری نہ تو کوئی واقفیت ہے اور نہ کوئی اوقات تو ویزہ کیسے ملے گا۔ آپؒ نے کمال شفقت فرماتے ہوئے خاکسار کے بیرون ملک آنے کا انتظام فرمایا۔
جب سویڈن کی مسجد ناصر یوتھے بوری جماعتی ضروریات کے لئے چھوٹی ہوگئی تھی اور اس کی توسیع کا معاملہ زیر غور تھا تو حضور انورؒ مسجد ناصر میں تشریف فرما تھے اور آپؒ نے تعمیر کمیٹی تشکیل فرمائی جس کا صدر خاکسار کو مقرر فرمایا۔ مسجد ناصر کی زمین حکومت سے 100 سالہ لیز پر لی گئی تھی۔ فرمایا کہ پہلے اپنی جگہ خریدیں پھر تعمیر کا پروگرام بنائیں۔ دو سال کی تگ و دود کے بعد کونسل نے مسجد کی جگہ کو ہمیں 1,3 ملین کرونر میں فروخت کا فیصلہ کیا۔ خاکسار یہ بات حضورانورؒ کی خدمت میں عرض کی تو فرمایا کہ مناسب قیمت ہے فوراً لے لیں۔ خاکسار نے اپنی ناسمجھی اور ناعاقبت اندیشی سے فوری تعمیلِ ارشاد کی بجائے عرض کیا کہ حضورؒ اگر اجازت دیں تو مزید سودے بازی کر لوں۔ فرمایا کہیں زمین نہ گنوا بیٹھنا۔ پھر کچھ توقف فرمایا اور پھر کھڑے ہوگئے۔ میں سمجھا کہ ملاقات ختم ہو گئی ہے اس لئے فوری طور پر باہر جانے کے لئے کھڑا ہوگیا۔ حضورؒ اپنی کرسی سے میری طرف تشریف لائے اور زور سے اپنے سینے کے ساتھ بھینچ کر فرمایا: سودے بازی کی اجازت ہے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے آپؒ کی قبولیتِ دعا کا اعجازی نشان دکھایا اور ہمیں یہ زمین صرف پانچ لاکھ میں عطا فرمائی۔ تعمیر مسجد کے دوران بھی ساری جماعت نے اور خاص طور پر تعمیر کمیٹی نے ہر لمحہ اور ہر پریشانی میں حضور انورؒ کی دعاؤں کے نظارے دیکھے۔