حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2؍اگست 2003ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی یاد میں مکرم عبدالقدیر قمر صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ جب مَیں دوسری جماعت کا طالبعلم تھا تو ایک کام سے پیدل گولبازار جارہا تھا۔ اچانک ایک کار میرے پاس آکر رُکی۔ حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ نے پوچھا: کہاں جارہے ہو۔ پھر معلوم ہونے پر اصرار کے ساتھ مجھے کار میں بٹھایا اور مطلوبہ جگہ پہنچادیا۔ پھر آپ کی شفقت اُس وقت دیکھی جب میرے دادا مکرم میاں محمد اسماعیل صاحب بیمار ہوئے۔ وہ ہمارے خاندان میں پہلے احمدی ہوئے اور پھر اُن کی دعوت الی اللہ سے سارا گاؤں احمدی ہوگیا اور بستی احمدیہ کہلانے لگا۔ وہ اپنی ساری عمر اپنی جماعت کے صدر رہے اور 1971ء میں ربوہ منتقل ہوگئے۔ جب وہ شدید بیمار ہوئے تو حضورؒ جو اُس وقت ناظم وقف جدید تھے، اُن کو دیکھنے گھر تشریف لائے اور مجھے فرمایا کہ آپؒ کے دفتر آکر ڈسپنسر سے فلاں فلاں دوا لے لوں۔ مَیں ڈسپنسر صاحب کے پاس گیا تو انہوں نے کہا کہ عصر کے بعد ڈسپنسری کھلے گی۔ اس پر مَیں واپس حضورؒ کے پاس گیا اور بتایا کہ دوائی عصر کے بعد ملے گی۔ آپؒ نے اُسی وقت ڈسپنسر صاحب کو بلوایا اور مجھے دوائی مل گئی جس میں اللہ تعالیٰ نے شفا بھی رکھ دی۔
بچپن میں ہی ایک بار مَیں اپنے پانچ چھ دوستوں کے ساتھ گرمیوں کی ایک دوپہر کو ایک بیری کے بیر توڑنے میں مصروف تھا۔ سب ننگے سر تھے۔ اتنے میں حضورؒ تشریف لائے اور ہمیں بلایا کہ اِدھر آؤ۔ ہم ڈرے کہ شاید سزا ملے گی لیکن آپؒ نے بڑی شفقت سے فرمایا کہ گرمیوں میں بیروں کے اندر کیڑا ہوتا ہے جس کے کھانے سے پیٹ خراب ہوجاتا ہے اور پھر ننگے سر پھرنے سے لُو لگ جائے گی۔ اتنے میں وہاں سے ایک آئس کریم والا گزرا۔ آپؒ نے اُس سے آئس کریم کا سب سے بڑا کپ ہر بچے کو دینے کا کہا۔ جب ہم آئس کریم کھاچکے تو آپؒ نے فرما یا کہ آئندہ مَیں آپ کو ننگے سر دھوپ میں پھرتے اور کیڑوں والے بیر کھاتے نہ دیکھوں۔
میرے ایک دوست جو قرضوں کے بوجھ میں اس طرح دَب گئے تھے کہ پریشانی میں اُن سے کوئی کام بھی ڈھنگ سے نہ ہوسکتا تھا۔ اُن کی بیوی نے خاموشی سے حضورؒ کی خدمت میں حالات عرض کردیئے۔ پیارے آقا نے کسی تحقیق کے بغیر شفقت فرماتے ہوئے اُنہیں مطلوبہ رقم بھجوادی۔
نظام کے احترام کا ایک واقعہ یہ ہے کہ ربوہ میں ایک مجلس شوریٰ کے موقع پر حضرت صاحبزادہ صاحبؒ کے پیچھے پیچھے محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب آرہے تھے اور محترم ڈاکٹر صاحب کا شوریٰ کا ٹکٹ بھی آپؒ کے پاس ہی تھا۔ جب آپؒ اپنا ٹکٹ دکھاکر اندر چلے گئے تو محترم ڈاکٹر صاحب سے ڈیوٹی پر موجود کارکن نے ٹکٹ طلب کیا۔ اس پر وہ ایک طرف کھڑے ہوگئے۔ چند قدم چلنے پر حضرت صاحبزادہ صاحبؒ کو احساس ہوا تو آپؒ واپس دروازہ پر تشریف لائے اور محترم ڈاکٹر صاحب کا ٹکٹ دکھاکر کہا کہ انہیں آنے دیں۔ اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہا۔
مضمون نگار کو اسیر راہ مولیٰ رہنے کی سعادت بھی عطا ہوئی۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اسیری کے سالوں میں حضورؒ نے جس طرح شفقت کی بارش مجھ پر اور میرے خاندان پر برسائی اور جس جس طرح دلجوئی فرمائی اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ آپؒ کی دعاؤں کو اللہ تعالیٰ نے شرف قبولیت بخشا اور عمر قید ہونے کے بعد جلد ہی معجزانہ رہائی کے سامان پیدا فرمادیئے۔